بھارتی ریاست منی پور میں عیسائی خواتین کی برہنہ پریڈ

منی پور: برہنہ خواتین کی پریڈ اور گینگ ریپ پر بھارت جل اٹھا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بادبان رپورٹ

ایک ہ کلپ وائرل ہونے کے بعد اس وقت پورا بھارت وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف بخار میں تپ رہا ہے۔ یہ ایک ایسے ہولناک، شرمناک واقعہ کا ویڈیو کلپ ہے جس پر پورے بھارت میں غیظ و غضب کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور منی پور کی صوبائی حکومت سے استعفیٰ مانگا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کلپ کا تعلق بھارت کی ریاست منی پور سے ہے۔ ویڈیو کلپ میں کوکی قبیلہ کی خواتین کو مکمل برہنہ حالت میں مخالف میتی قبیلے کا ایک ہجوم  گاؤں سے نکال کر کھیتوں میں لے جاتا ہے جہاں اس گروہ کے کچھ لوگ ان خواتین سے اجتماعی زیادتی کرتے ہیں۔

یہ واقعہ 4 مئی 2023 کو ہوا۔ متاثرہ خواتین عیسائی قبیلہ ( کوکی) سے تعلق رکھتی ہیں جبکہ ان پر تشدد کرنے والے گروہ کا تعلق ہندو ( میتی) قبیلہ سےہے۔ دونوں قبائل کے درمیان تشدد اس واقعہ سے ایک روز پہلے شروع ہوا تھا۔ واردات کے روز یعنی چار  مئی کو 800 سے 1000 افراد پر مشتمل ایک ہجوم جو کہ جدید ہتھیاروں سے لیس تھا، بی پینوم گاؤں میں داخل ہوا۔ اس نے لوٹ مار کی اور گھروں کو نذر آتش کر دیا۔ ان لوگوں کا تعلق میتی یعنی ہندو قبیلہ تھا۔

اس حملے کے دوران گاؤں کے دو مرد اور تین خواتین نے بھاگ کر جنگل میں پناہ لی۔ بعد میں پولیس نے انھیں ریسکیو کیا اور پولیس اسٹیشن لے کر آئی جہاں سے انھیں میتی یعنی ہندو قبیلہ کے ہجوم نے ان لوگوں کو اغوا کر لیا۔ انھوں نے مغویوں میں سے ایک مرد کو ہلاک کر دیا جبکہ تینوں خواتین کو کپڑے اتارنے پر مجبور کیا۔ ان میں سے ایک 20 سالہ خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی۔ جب اس کے بھائی نے مداخلت کرنے کی کوشش کی تو اسے ہلاک کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

بھارت: ریاست منی پور کے حالات قابو سے باہر ہوگئے

اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق متاثرین میں سے ایک خاتون نے بتایاکہ میتی قبیلہ کے اس ہجوم میں پولیس اہلکار بھی موجود تھے۔ خاتون کے مطابق پولیس ہی نے انھیں ہجوم کے حوالے کیا تھا۔

میڈیا ویب سائٹ ’اسکرول ڈاٹ ان‘ کے مطابق متاثرین میں سے ایک 40 سالہ خاتون نے اس کے نمائندے کو بتایا کہ حملہ آوروں نے ان لوگوں کے سامنے ان کے ایک پڑوسی اور اس کے بیٹے کو بھی ہلاک کیا۔ ان کے مطابق انہوں نے ہم سے کہا کہ اگر کپڑے نہیں اتارو گی تو تمہیں بھی ہلاک کر دیں گی۔ ہم نے اپنی جان بچانے کی خاطر کپڑے اتارنے پر مجبور ہوگئیں، پھر وہ لوگ ہم پر جنسی تشدد کرتے رہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی رپورٹ اس لیے درج نہیں کی گئی تھی متاثرہ خواتین نے رپورٹ درج ہی نہیں کرائی تھی۔ یہ اس پولیس کا موقف ہے جس نے ان لوگوں کو ہندو ہجوم کے حوالے کیا اور پھر ان خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے والے ہجوم میں یہ پولیس والے بھی شریک تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔

تین مئی سے شروع ہونے والے تشدد کے نتیجے میں 140افراد ہلاک ہوئے، 60 ہزار افراد ڈر کے مارے اپنے گھروں کو چھوڑ گئے۔ یہ سب عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ ہندو قبیلے نے 200 گاؤں اور 300 چرچ جلا کر راکھ بنا دیے۔ اس دوران پولیس نے ہندو ہجوم کے حوالے اپنے ہتھیار کیے مگر ظاہر کیا کہ ہجوم نے پولیس اسٹیشنوں سے ہتھیار لوٹے۔

منی پور کے سابق گورنر گربچن جگت نے بعدازاں ایک اخبار دی ٹربیون میں اپنے مضمون میں لکھا: ‘حقیقت یہ ہے کہ ریاست بھر میں پولیس اسٹیشنوں اور پولیس کے اسلحہ خانے پر حملہ کیا گیا ہے اور ہزاروں بندوقیں اور بھاری مقدار میں گولہ بارود لوٹ لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر، پنجاب، دہلی، گجرات کے بدترین دور میں بھی ایسا نہیں ہوا۔ چوری شدہ  ہتھیار ریاست کی سیکورٹی فورسز کے لیے ایک چیلنج  بنے رہیں گے’۔ ان کا کہنا ہے بھارت میں ریاست منی پور کی صورت حال کشمیر اور پنجاب میں دیکھی گئی صورت حال سے زیادہ خراب ہوچکی ہے۔’ ‘

منی پور میں پولیس اسٹیشنوں اور پولیس کے اسلحہ خانے پر حملہ کرکے ہزاروں بندوقیں اور بھاری مقدار میں گولہ بارود لوٹ لیا گیا، سابق گورنر گربچن جگت

منی پور میں تنازع کیا ہے؟

منی پور میں فسادات ریاست کی ہندو آبادی میتی اور پہاڑوں پر آباد قبیلے کوکی کے درمیان ہو رہے ہیں۔ بی جے پی حکومت کی کوشش ہے کہ منی پور میں آبادی کا تناسب تبدیل کیا جائے۔ یہاں میتی قبیلے کو زمین خریدنے کی اجازت نہیں ہے۔ ساری زمین کوکی قبیلے سمیت دیگر قبائلی گروہوں کے لیے مختص ہے۔ موجودہ قانون کے تحت میتی کمیونٹی کو منی پور کے پہاڑی علاقوں میں رہنے کی اجازت نہیں ہے۔

منی پور کی غیر قبائلی آبادیوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں قبائل کا درجہ دیا جائے تاکہ ان کی آبائی زمین، ثقافت اور شناخت کو قانونی تحفظ مل سکے۔ دوسری جانب اس مطالبے کے خلاف منی پور کے قدیم قبائل کی تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں۔

بھارت کی بی جے پی کی مرکزی حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لیے مداخلت کی تو معاملات مزید خراب ہوئے۔ مثلا مرکزی وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے جب ریاست کا دورہ کیا تھا تو تشدد کی آگ مزید تیز ہوگئی تھی، نجانے وہ کیا پھونک مار کر گئے تھے۔

انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی علمبردار تنظیموں کا ردعمل

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم دہلی کی ایک تنظیم ’آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسو سی ایشن‘ (اے آئی ڈی ڈبلیو اے) نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ تنظیم کی جنرل سیکریٹری مریم دھاولے نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ منی پور میں تین مئی سے ہی تشدد جاری ہے لیکن وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ خاموش ہیں۔ اب جب کہ ایک بھیانک واردات کی ویڈیو سامنے آگئی ہے تو انھیں اب تو بولنا چاہیے۔
انھوں نے مودی حکومت پر نفرت کی سیاست کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ اس کی وجہ سے عام لوگوں کے اندر کا وحشی پن اب ظاہر ہونے لگا ہے۔ اس سیاست کے خلاف پورے ملک میں زبردست غصہ ہے۔ ہم اس کے خلاف احتجاج کریں گے۔

انٹرنیٹ پر پابندی عائد کرکے انسانی حقوق کی بھیانک خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالا گیا

انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس واردات کی مذمت کی ہے۔ اس نے مذکورہ ویڈیو کے حوالے سے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ یہ صدمہ انگیز واقعہ منی پور میں ہونے والے تشدد کی سنگینی اور شرپسندوں کو ملی چھوٹ کی یاد دلاتا ہے۔

اس نے مزید کہا کہ مئی میں تشدد برپا ہونے کے بعد انتظامیہ نے انٹرنیٹ پر پابندی عائد کر دی جو آج بھی جاری ہے۔ جس کی وجہ سے منی پور میں انسانی حقوق کی بھیانک خلاف ورزیوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔

اس نے مطالبہ کیا کہ جنسی تشدد کے تمام الزامات کی مؤثر، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ جانچ کی جائے تاکہ متاثرین کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ منی پور میں فوری طور پر انٹرنیٹ خدمات بحال کی جائیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں