شہدا صداقت شنیڈ او کونر

مغربی میڈیا آئرش گلوکارہ کی باحجاب تصاویر کیوں نہیں دکھا رہا تھا؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جویریہ خان

شہدا صداقت جب ایک گلوکارہ تھیں تو ’شنیڈ او کونر‘ کے نام سے پوری دنیا میں معروف تھیں۔ ان کا 26 جولائی بروز بدھ کو انتقال ہوا تو برطانیہ سے امریکا تک، پوری مغربی دنیا میں ان کی وفات کی خبریں نشر ہو رہی تھیں، ’شنیڈ او کونر‘ ہی کے نام سے خبریں چل رہی تھیں۔

بتایا جارہا تھا کہ آئرلینڈ کے صدر سمیت دیگر حکومتی عہدیداروں، مختلف سماجی تنظیموں، موسیقی اور ٹی وی سے وابستہ شخصیات سمیت عام افراد نے بھی گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ ان کی جوانی کی تصاویر اور فوٹیجز ایسی چل رہی تھیں جن میں انھوں نے اپنے سر کے بال منڈوائے ہوئے تھے اور گلوکاری کر رہی تھیں، ان کی باحجاب زندگی کی تصاویر اور فوٹیجز کم ہی دیکھنے کو مل رہی تھیں۔

صرف چند ایک میڈیا اداروں نے خبروں میں ہلکا پھلکا ذکر کیا تھا کہ ’شنیڈ او کونر‘ نے 2018 میں اسلام قبول کرلیا تھا اور ان کا نام شہدا صداقت تھا۔

شہدا صداقت المعروف ’شنیڈ او کونر‘ کی پوری زندگی پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے مغربی تہذیب کے سارے رنگ دیکھ لیے تھے لیکن سب کچھ دیکھ کر، وہ حلقہ  بگوش اسلام ہوئیں تو انھیں سکون و اطمینان نصیب ہوا۔ تب انھوں نے کہا ’میں اپنے گھر میں پہنچ چکی ہوں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ مجھے مسلمان ہونے پر فخر ہے۔ کسی بھی مذہبی فرد کی آخری منزل اسلام ہی ہوتی ہے۔ تمام مذہبی کتب کا مطالعہ کرلیا جائے، وہ سب کی سب اسلام کی طرف ہی لے جاتی ہیں۔

آئیے! جانتے ہیں کہ ’شنیڈ او کونر‘ کیسے شہدا صداقت بنیں؟

بے مثال صلاحیتوں کی حامل آئرش گلوکارہ ’شنیڈ او کونر‘  گیت لکھتی تھیں اور گاتی تھیں۔ پہلے وہ ڈبلن کے بازاروں میں گاتی تھیں لیکن جلد ہی ان کی شہرت پھیلتی چلی گئی۔1987 میں ان کے گیتوں کا پہلا البم آیا ’ The Lion and the Cobra ‘۔ 90کی دہائی میں وہ نہ صرف مغرب بلکہ پوری دنیا میں چھائی ہوئی تھیں۔ انھیں 20 برس کی عمر کے بعد اس قدر زیادہ شہرت اور دولت ملی جو اکثر لوگوں کے خواب و خیال ہی میں ہوتی ہے۔ شنیڈ او کونر کو آئرلینڈ کی شہرت یافتہ گلوکارہ کا اعزاز حاصل ہوا، ان کا شمار 1980 سے 1995 کی سب سے زیادہ مشہور آئرش گلوکاراؤں میں ہوتا ہے۔ 1990 میں ریلیز ہونے والے البم’ Nothing Compares 2 U ‘ نے براعظم یورپ سے براعظم آسٹریلیا تک دھوم مچادی۔ یہ البم تین اعلیٰ یورپی ایوارڈز کے لیے نامزد ہوا۔ اس کے بعد ان کا ایک اور البم آیا ’ I Do Not Want What I Haven’t Got ‘، اس البم نے انھیں 1991 کی بہترین گلوکارہ بنادیا۔

سن 2003 میں ’شنیڈ او کونر‘ نے گلوکاری کی دنیا کو خیرباد کہہ دیا لیکن اس کے بعد بھی وہ گیت ریکارڈ کراتی رہیں۔ ان کا آخری البم ’  I’m Not Bossy, I’m the Boss ‘ تھا جو 2014 میں ریلیز ہوا۔

شہدا صداقت المعروف  شنیڈ او کونر نے 4 شادیاں کی تھیں، بدقسمتی سے چاروں شادیاں طلاق پر ختم ہوئیں۔ ان کے 4 بچے تھے۔ وہ دادی بھی تھیں۔

شنیڈ او کونر

شنیڈ او کونر ماضی میں ہم جنس پرست بھی رہیں۔ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے قبل اپنے انہی جنسی رجحانات کی وجہ سے بھی تنقید کا سامنا کرتی رہی ہیں، انہوں نے سال 2000 میں اعتراف کیا تھا کہ وہ ہم جنس پرست ہیں، انھوں نے اعتراف کیا تھا کہ ان کے 3 خواتین سے بھی تعلقات رہے ہیں۔ بعد ازاں انہوں نے خود کو دونوں جنسوں میں دلچسپی رکھنے والی خاتون قرار دیا تھا۔ اس کے بعد وہ وقت بھی آیا جب وہ صرف جنس مخالف کی طرف مائل ہوئیں۔

شنیڈ او کونر نے کئی سال تک مسیحیت اور مغربی طرز زندگی اور ثقافت کے درمیان گزارے، لیکن پھر ان سے بے زار ہوئیں اور انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ مسیحی مذہبی علما بشمول ویٹی کن سٹی اور پوپ فرانسس پر بھی کڑی تنقید کیا کرتی تھیں۔ 1992 میں کیتھولک چرچز میں بچوں سے بدفعلی کی خبریں آنے لگیں تو شنیڈ او کونر نے ایک ٹی وی شو میں اس وقت کے کیتھولک مسیحی روحانی پیشوا پوپ جان پال دوم کی تصویر پھاڑ دی تھی۔ اس پر ان کے خلاف مخالفت کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔

وہ کٹڑ مسیحی تھیں تاہم مسیحیت کے بعض اصولوں کو نہیں مانتی تھیں۔ وہ فیمینسٹ تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ خواتین بھی پادری بن سکتی ہیں۔ چنانچہ وہ کیتھولک عیسائی ہونے کے باوجود پادری بنیں۔

شہدا صداقت فلسطینیوں کی زبردست حمایت کرنے والی تھیں۔ وہ اپنے کنسرٹس میں فلسطینی پرچم لہراتی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ انسانی بنیادوں پر سوچا جائے تو اس دنیا میں کوئی بھی فرد ایسا نہیں ہوگا جسے فلسطینیوں سے ہمدردی محسوس نہ ہوتی ہو۔ جو کچھ اسرائیل کر رہا ہے، اس دنیا میں شاید ہی کوئی سمجھ دار شخص ایسا ہو، جسے یہ سب کچھ سمجھ آئے۔

مغربی میڈیا نے جس طرح شہدا صداقت المعروف بہ شنیڈ او کونر کے مسلمان ہونے کے پہلو کو چھپایا، اس پر سوشل میڈیا پر پوری دنیا سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ واقعتا یہ سمجھ نہیں آتا کہ برطانوی میڈیا شنیڈ او کونر کی حجاب والی تصویریں کیوں نہیں دکھا رہا ہے حالانکہ وہ برسرعام ایک باعمل مسلمان کے طور پر زندگی بسر کر رہی تھیں – یہی وجہ ہے کہ ہمیں نیوز روم میں مسلمانوں کی ضرورت ہے کیونکہ غیر مسلم لوگ اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں