سیل میلہ پر خواتین کی لڑائی

پسندیدہ لباس حاصل کرنے کی جنگ، ہماری اقدار کہاں ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

حمیرا گیلانی

گزشتہ دنوں ایک صبح نظریں خبروں پہ تھیں کوہ نور پلازہ جڑانوالہ روڈ فیصل آباد میں ایک دکان جہاں ملبوسات کی سیل لگی تھی، میدان جنگ بن گئی۔ لڑائی پسندیدہ سوٹ حاصل کرنے کے چکر میں خواتین کے درمیان شروع ہوئی، بعدازاں انھوں نے اپنے مردوں کو بھی لڑائی میں گھسیٹ لیا اور پھر سب نے ایک دوسرے پر جوتے برسائے۔   

اس  خبر نے تو ہوش ہی اڑا دیے،  بے اختیار منہ سے نکلا یااللہ  خیر! لیکن پھر اپنے ہی الفاظ پہ شرمندگی  ہوئی، میں اپنے ہی الفاظ  کو سوچ کر اپنے آپ سے آنکھیں چرانے لگی کہ اللہ سے کیا نظریں ملاؤں گی۔ اللہ دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے۔ وہ تو سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے۔ سوچا کہ ہم کہاں کس پستی کی طرف جارہے ہیں؟ ہماری اقدار و روایات  کیا ہیں؟ ہمیں کون سا علم دیا گیا کہ ہمیں اشرف المخلوقات  بنایا گیا، ہمیں زمین پہ خلیفہ بنا کر بھیجا گیا۔ کیا اس لیے کہ ہم دو ٹکے کے کپڑے کے لیے اپنے جیسے ہی انسانوں کو چیر پھاڑ کر رکھ دیں؟ انسانیت ان کپڑوں کے لیے تماشہ بن جائے جنھوں نے کچھ وقت کے لیے آپ کے ساتھ رہنا ہے؟ کیا وہ کپڑے اس قدر اہم ہیں کہ ہم اس کی خاطر سرعام  لڑائی جھگڑے کریں؟ ان 2 افراد میں سے کسی نے نہ سوچا کہ میں اس کو چھوڑ دوں تو اللہ مجھے اس سے بہتر چیز عطا کر دے گا۔ ان میں سے کسی نے اپنے عورت ہونے کا احساس نہ کیا۔ 

ان کو مردوں اور وہ بھی غیر مردوں کے بیچ لڑتے ہوئے شرم اور خوف نہ محسوس ہوا۔

، ان کو شوہروں کا ڈر بھی نہیں تھا اور پھر اس مرد کو جو بحیثیت شوہر ساتھ تھا، کو بھی اپنے حاکم ہونے کا اور اختیارات کا علم نہ تھا

کیا ان شوہروں کا فرض نہ تھا کہ وہ اپنی بیویوں سے وہ کپڑا لے کر وہیں پھینک دیتے اور انھیں عزت کے ساتھ گھر لے جاتے ؟

کیا ان مردوں کو یہ زیب دیتا تھا کہ وہ اپنی اپنی بیویوں کہ کہنے پہ ایک دوسرے سے دست وگریباں ہوگئے؟

یہ مسئلہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ایک عرصہ سے اسی طرح گالم گلوچ، لڑائی جھگڑا ہر مرتبہ سیل لگنے پہ ہوتا ہے ۔

مختلف برانڈز ہر ماہ سیل لگاتے ہیں۔ ان کا کام لوگوں میں بے صبری، لوٹ کھسوٹ،  اور ہر چیز حاصل کرنے والی خصوصیات  پیدا کرنا ہیں۔ یہ لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔   

 پہلے زیادہ سے زیادہ قیمتیں رکھ کر کماتے ہیں، پھر عوام کو پاگل بنانے کے لیے اس پہ سیل لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ پہلے 10 سے 20 فیصد کی سیل، پھر کچھ عرصہ کے بعد اس سے زیادہ کی سیل اور موسم کے ختم ہونے سے پہلے 50 فیصد کی سیل کہ ابھی سے اگلے سال کے لیے خرید لو۔ اور لوگ سارا سال اسی بھاگ دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ

کیا یہ تباہی ماں کی گود سے شروع ہوتی ہے؟

کیا یہ تباہی نظام تعلیم کی مرہون منت ہے؟ 

کیا یہ تباہی میڈیا کی مرہون منت ہے؟

کیا یہ حکمرانوں کی دین ہے؟

بحیثیت انسان ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسروں کا خیال کرے، بحیثیت مسلمان تو یہ ذمہ داری بڑی ہو جاتی ہے۔ ہر شخص کیوں اس چکر میں ہے کہ دوسرا فرد ہی صبر کرے؟ اسے یہ سوچ کیوں نہیں آتی کہ وہ خود صبر کیوں نہ کرلے؟

ہر سطح پہ موجود ہر شخص جواب دہ ہے۔ اپنے ہر رویہ کا ذمہ دار وہ خود ہے، اس لیے اسے خود اپنی اخلاقی اقدار کو برقرار رکھنا ہے۔ اگر کوئی یہ کام خود نہیں کرتا تو وہ دوسروں سے کیسے اخلاقی اقدار کا خیال رکھنے کی توقع رکھ سکتا ہے!

ہم بحیثیت مسلمان قوم کس پستی کا شکار ہو چکے ہیں، ہمیں اس کا اندازہ ہی نہیں ہے اور نہ ہی ہم اس میں کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہرشخص اپنی ذات سے خود تبدیلی کا آغاز کرے، اخلاقی اقدار کا خیال رکھے اور پھر باقی سب کو اس کی تعلیم دے۔

سوال یہ ہے کہ ہم مائیں اپنے بچوں کو یہ قرآن مجید کی یہ بات کیوں نہیں سکھاتیں کہ

لن تناؤ البرا حتی تنفقوا مما تحبون

’ تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (خدا کی راہ میں )خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو‘(آل عمران: 92)

اگر ہر فرد کو یہ سبق سکھا دیا جائے تو پھر معاشرے میں ابوبکر اور عمر فاروق رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں