فقیر بستی میں تھا، از علی اکبر ناطق

فقیر بستی میں تھا (مولانا محمد حسین آزاد کی کہانی، میری زبانی)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبید اللہ عابد

مولانا محمد حسین آزاد اردو کے ممتاز ادیب اور شاعر تھے۔ انھیں شمس العلما قرار دیا گیا۔ انھوں نے نہ صرف اردو نثر کو ایک نیا انداز دیا بلکہ اردو نظم کو بھی نئی شکل و صورت عطا کی۔ انھوں نے اردو دنیا کو بہت سی گراں قدر تصانیف دیں۔ سب سے زیادہ شہرہ ’آب حیات‘ کا ہے۔

جناب علی اکبر ناطق کی زیر نظر کتاب دیکھی تو طبیعت پھڑکی کہ اس پر تبصرہ کی غرض سے کچھ لکھا تو ایسے لکھوں گا، ویسے لکھوں گا۔ تاہم جب یہ پڑھا کہ یہ کتاب کیسے اور کیوں لکھی گئی تو یہ مجھے محبت کی ایک عجب داستان محسوس ہوئی، دل چاہا کہ یہ کہانی قارئین کی خدمت میں بھی پیش کروں۔ علی اکبر ناطق لکھتے ہیں:

’میں دسویں جماعت میں تھا، اپنے گاؤں میں رہتا تھا۔ گھر کے سامنے ایک پانی کا نالہ بہتا تھا اور نالے پر ٹاہلیوں کے بے شمار چھاؤں بھرے درخت تھے۔ ان کے نیچے بان کی چارپائی بچھا کر اکثر کتابیں پڑھتا تھا۔ ایک دن میرے ہاتھ ڈاکٹر سید عبداللہ کی کتاب ’مباحث‘ آگئی۔ مختلف مضامین کی دلچسپ کتاب تھی۔ اسی میں ایک مضمون ’میں اور میر‘ بھی تھا۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے مولوی محمد حسین آزاد پر جرح کی تھی کہ اس نے ’آب حیات‘ میں میر صاحب کے کردار کو متنازع بنا ڈالا، میر کو مبالغہ کی حد تک خودپسند ثابت کیا۔ مجھے اس مضمون میں دیے گئے دلائل بہت عجیب اور متضاد لگے۔

مضمون پڑھ کر الٹا میں آزاد کے لیے تڑپ اٹھا۔ جلد مولوی آزاد کی کتاب ’آب حیات‘ کو ڈھونڈنے نکلا۔ اوکاڑہ شہر میں کسی دکان پر ’آب حیات‘ نہیں تھی۔ اسی دن ریلوے اسٹیشن پر آیا، ایک بجے کی ریل پر بیٹھا اور لاہور پہنچ گیا۔ اردو بازار لاہور سے ’ٓآب حیات‘ خریدی اور شام کی ٹرین سے اپنے شہر نکل لیا۔ راستے میں کتاب کا بے صبری سے مطالعہ شروع کردیا۔ پھر بہت عرصہ یہ کتاب میری حرز جان رہی اور میں مولانا کا عاشق ہوگیا۔

پھر جہاں سے جو کچھ بھی آزاد کے حوالے سے ملا، پڑھ ڈالا۔ لاہور میں آزاد کے ٹھکانوں کو تلاش کیا۔ جب دہلی گیا تو وہاں بھی آزاد کے پرانے گھر اور کھجور والی مسجد کو ڈھونڈا۔ آزاد کے رشتے داروں کو ڈھونڈا۔ ان میں ایک آغا سلمان باقر ملے، انھوں نے مجھے آزاد کے متعلق بہت مالامال کردیا، خدا انھیں سلامت رکھے حتیٰ کہ آزاد کے بارے میں میری معلومات دہلی، لکھنؤ، لاہور اور دیگر مقامات کے حوالے سے انتہائی اہم ہوگئیں۔ بعض معلومات اتنی دلچسپ، بالکل نئی اور ہمہ رنگ تھیں کہ پہلے تحریر میں نہیں آئی تھیں اور مجھے محسوس ہوا کہ یہ سب دست غیبی ہے۔ قدرت چاہتی ہے کہ یہ ان قارئین تک پہنچایا جائے جو اردو ادب اور مولانا محمد حسین آزاد سے محبت کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک وقت ایسا آیا کہ میں نے آزاد پر قلم اٹھایا اور یہ کتاب ’ فقیر بستی میں تھا‘ وجود میں آئی‘۔

 اب تک کی تحریر سے پڑھنے والوں کو بخوبی اندازہ ہوچکا ہوگا کہ یہ کتاب ہے کیا؟ اور اس کتاب میں ہے کیا؟ اب ذرا مختصر تعارف علی اکبر ناطق کا۔

ممتاز پاکستانی ناول نگار، افسانہ نگار اور شاعر ہیں۔ دو ناول جبکہ شاعری اور افسانوں کے متعدد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ پنجاب کے علاقے اوکاڑہ سے تعلق ہے۔ وہ راج مستری کے طور پر مزدوری کیا کرتے تھے، پندرہ برس یونہی گزرے۔ ساتھ پرائیویٹ طور پر ماسٹر کے امتحانات بھی پاس کیے، اس کے ساتھ اردو نثر، شاعری، تاریخ اور سماج کا مطالعہ بھی کرتے رہے۔  یوں وہ علی اکبر ناطق بنے جو آج کل ہمارے سامنے ہیں۔ ان کی دو کتب نے ایوارڈز جیتے ہیں جبکہ متعدد کتب کا انگریزی اور جرمن ترجمہ ہوچکا ہے۔

’ فقیر بستی میں تھا‘ کی خوبصورتی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب مولانا محمد حسین آزاد کی دہلی میں گزری زندگی کا تذکرہ کیا تو اسے اسی دور کی مروجہ روزمرہ کی دہلوی زبان و بیان میں لکھا اور جو دور مولانا آزاد نے غدر کے بعد آوارہ وطنی اور اس کے بعد لاہور میں تا وفات بسر کیا، اسے لاہوری اردو میں لکھا۔ ایک اہم بات یہ بھی کہ علی اکبر ناطق نے مولانا آزاد کی پوری زندگی کو ایک ناول اور کہانی کے سے انداز میں لکھا ہے۔

تبصرہ نگار: عبیداللہ عابد

نام: فقیر بستی میں تھا (مولانا محمد حسین آزاد کی کہانی، میری زبانی)

مصنف: علی اکبر ناطق

قیمت: 999 روپے

ناشر: بک کارنر، جہلم۔ رابطہ:03215440882


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں