سہیل وڑائچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نائن الیون نے دنیا بدل دی تھی اور پاکستان میں احتساب عدالت کے فیصلے نے مسلم لیگ (ن) کی سیاست بدل دی ہے۔ نواز شریف اور ان کی پارٹی دیوار سے لگ گئے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ ان کی مزاحمت میں ایسی جارحیت نہیں ہے کہ وہ ملک گیر سطح کی کوئی احتجاجی تحریک چلا کر سیاسی دباؤ ڈال سکیں۔
ایسی صورتحال میں تحریک انصاف کو سیاسی طور پر فری ہینڈ ملے گا اور وہ اپنے راستے میں موجود سیاسی رکاوٹوں کو ہٹائے گی۔ تاہم نواز شریف اور شہباز شریف کے جیل جانے کے بعد عمران خان پر اپنی کار کردگی دکھانے کے لیے دباؤ بڑھ جائے گا۔
پہلے وہ ہر چیز میں ماضی کی کرپشن اور بیڈ گورنس کا ذکر کر کے آگے بڑھ جاتے تھے، لیکن اب اپوزیشن رہنماؤں کی جیل میں موجودگی انھیں ماضی سے حال میں آنے اور کچھ کرنے پر مجبور کرے گی۔
دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کی بالعموم اور مریم نواز کی بالخصوص پراسرار خاموشی بھی نواز شریف کی گرفتاری کے بعد ٹوٹ گئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ کم از کم اپنے بیانات اور موقف میں وہی پرانا جارحانہ انداز لائے گی اور تحریک انصاف پر پارلیمان کے اندر اور دباؤ بڑھائے گی۔
نون کا شہری ووٹ بینک زیادہ تر تاجر پیشہ لوگوں پر مشتمل ہے جو کہ احتجاجی سیاست کے قائل نہیں ہیں۔ ان کی پارٹی سے وابستگی ووٹ ڈالنے اور زیادہ سے زیادہ پارٹی فنڈز دینے تک محدود ہے۔ وہ پولیس کے ڈنڈے کھانے یا احتجاج کے لیے اپنا بزنس بند کرنے کے قائل نہیں ہیں۔
مسلم لیگ نون کا تضاد یہی ہے کہ اس کی قیادت جب اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف لیتی ہے تو اس کے ووٹ بینک کو یہ سوٹ نہیں کرتا۔ تاجر چاہتے ہیں کہ نون لیگ اور ایسٹبلشمنٹ میں بنی رہے۔ تاجر طبقہ فوج تو کجا، پولیس حتیٰ کہ محکمہ ایکسائز سے بھی بنا کر رکھتا ہے کہ ان کے بزنس کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ ہو۔
نون لیگ نے اپنی تین دہائیوں کی سیاست میں کامیاب ہڑتال یا احتجاج اسی وقت کروایا ہے جب تاجروں پر ٹیکس لگائے گئے۔ اب بھی نون احتجاج یا ہڑتال کی کال تبھی دے گی جب تاجروں پر ٹیکس لگے گا یا وہ تحریک انصاف کی تاجر مخالف پالیسیوں سے نالاں ہونگیں۔
میاں نواز شریف کے خلاف فیصلے کی اگر بڑی تصویر کو دیکھا جائے تو قوم نے جو مینڈیٹ دیا تھا اس میں عمران خان کو حکومت اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو اپوزیشن کا کردار ملا تھا۔ اگر حکومت نے اپوزیشن لیڈر شپ کو جیلوں میں ڈال دیا تو جمہوریت کی گاڑی چار پہیوں پر نہیں دو پہیوں پر چلانی پڑے گی اور یہ گاڑی کئی میل آگے تو چلی جائے گی مگر زیادہ دور نہیں جا سکے گی۔
تازہ سزاؤں سے سنہ 2018 میں بنائے گئے نظام میں گہرا خلاء اور شگاف پڑ گیا ہے۔ سیاست میں خلا اور شگاف زیادہ دیر نہیں رہتا۔ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں جب سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کو جسٹس ملک قیوم نے سزا سنائی تو نواز شریف کو ایک طرف فری ہینڈ مل گیا تھا، لیکن ساتھ ہی توازن ٹوٹنے سے ان کا جانا بھی ٹھہر گیا تھا اور پھر سب نے دیکھا کہ نواز شریف اکیلے بڑے اور طاقتور ہونے کے باوجود 1999 میں رخصت ہو کر رہے۔
اگر بے نظیر نا اہل نہ ہوتیں تو شاید سنہ 1999 کا مارشل لاء بھی نہ لگتا اور شاید ٹوٹا پھوٹا نظام بھی چلتا رہتا۔ اب بھی عمران خان بظاہر اپنے سیاسی مخالفوں کو جیل بھیج کر مضبوط ہونگے مگر سیاسی توازن ٹوٹنے کے بعد سیاست اور فیصلوں کا سارا بوجھ ان پر ہو گا۔ 70 سالہ پاکستانی سیاست میں جب بھی ایسا موقع آیا ہے حکمران کا عروج پر جانے کے بعد زوال کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے۔
ماضی میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی جماعت دیوار سے لگ جاتی ہے تو وہ معمول سے ہٹ کر اور قانون و آئین سے بالاتر کوئی حل سوچنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ مشرف دور میں نواز شریف کو سزائیں ہو گئی تو سعودی اور لبنانی اثر و رسوخ سے وہ سزاؤں کے باجود بیرون ملک روانہ ہو گئے۔
اس بار شاید شریف خاندان کو بلاد عرب سے مدد نہ آئے مگر طیب اردوغان اور ترکی سے ان کی دوستی کام آسکتی ہے۔ سننے میں آرہا ہے کہ در پردہ پیغامات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ دیکھیئے اس سے کیا ظہور میں آتا ہے۔
تاہم کسی ڈیل یا این آر او کی صورت میں عمران خان کو نا قابل تلافی سیاسی نقصان ہو گا۔ قومی مفاد کے نام پر پہلے بھی سیاسی مفاد قربان ہوتے رہے ہیں اب بھی اس کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری طرف اگر ہم اس مفروضے پر غور کریں کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے پرانے فلسفے Decriminilisation of Politics (مجرمانہ سیاست کے خاتمے) پر عمل پیرا ہے اور اس اعتبار سے وہ ‘نکل’ فارمولے کے ذریعے نواب شاہ، کراچی، لاہور کی سیاست میں موجود زرداری آف نواب شاہ، متحدہ آف کراچی اور شریف آف لاہور کو سیاست سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں اور ان کی جگہ نئے چہرے لانا چاہتے ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات چودھری فواد کئی بار کہہ چکے ہیں کہ سنہ 1985 کی سیاست کے چہرے اب نہیں چل سکتے، اب نئے نوجوان اقتدار سنبھالیں گے اور اگر اسی پیرائے میں جنرل آصف غفور کے اگلے چھ ماہ تک نظام کے استحکام کی بات پر غور کیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ سب کچھ ایک خاص ٹائم ٹیبل کے تحت ہو رہا ہے۔ اگلےچھ، آٹھ ماہ میں پرانے چہرے رخصت کر دئیے جائیں گے اور نئے چہروں کو لایا جائے گا نواز شریف اور زرداری کے سیاسی خلا ء کو پر کرنے کے لیے شاید کوئی نئی سیاسی جماعت یا نیا سیاسی گروپ بھی بنایا جائے گا۔
تاریخ کو دیکھا جائے تو صاف نظر آرہا ہے عسکری پلاننگ سے فیصلے تو ہوسکتے ہیں مگرضروری نہیں کہ پاکستانی سیاست اور عوام میں انھیں پزیرائی بھی حاصل ہو۔ ماضی میں بھٹو، بے نظیر، نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف مقدمات بھی چلے سب کے سب جیلوں میں بھی رہے مارشل لاء لگے مگر اس کے باوجود نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو ختم نہ کیا جا سکا۔
آج پیپلزپارٹی کمزور ہے تو اس میں بھی اس کی زرداری گیلانی دور کی کارکردگی کا ہاتھ ہے، اسی دور کے بعد پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک کم ہوا ہے وگرنہ برے سے برے حالات میں بھی پیپلزپارٹی 18 فیصد ووٹ ہر صورت میں لیا کرتی تھی۔
اصل بات یہ ہے کہ اگر ان فیصلوں کے بعد نواز شریف مصلحتوں کا شکار رہے، مریم کا ٹوئٹر پھر خاموش رہا، شہباز شریف درمیانی لائن لیتے رہے تو نون لیگ کی سیاست کو دھچکا لگے گا اور پنجاب سے کوئی نیا سیاسی گروپ جو جارحانہ سیاست کرے گا وہ ان کی جگہ لے سکتا ہے۔ لیکن اگر مریم اور حمزہ نے جارحانہ سیاست کی تو ان کی سیاست زندہ رہے گی اور عمران خان حکومت کی کمزاریاں اسے مزید تقویت دیں گی۔
اندازے یہ کہتے ہیں کہ اگلے چھ ماہ میں یہ طے ہو گا کہ اگلی سیاست میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے بڑے کردار رہیں گے یا کوئی نیا کردار سامنے آئے گا۔ انھی چھ ماہ میں عمران کی کارکردگی کا بھی اندازہ ہو جائے گا اور یہ بھی طے ہو جائے کہ وہ اگلے ”دس سال’ حکومت کریں گے یا سنہ 2019 جولائی سے ان کا زوال شروع ہو جائے گا؟