عمران خان کی سول سروس اصلاحات، بعض وزرامخالفت میں اکڑ گئے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

انصار عباسی………..
عمران خان کےسول سروس اصلاحات کے خواب کو کابینہ کی جانب سے مزاحمت کا سامناہے۔پی ٹی آئی کی 4ماہ کی حکومت میں ایک بھی اصلاحاتی تجویز منظور نہیں ہوسکی ہے۔چار ماہ گزرجانے کے باوجود عمران خان حکومت نے سول سروس سے متعلق کسی بھی اصلاحات پر عمل درآمد کی منظوری نہیں دی ہےجب کہ پولیس کی رپورٹس کہ واحد تجویز(جو کہ وفاقی سیکرٹریزکی مدت کے تحفظ سے متعلق ہے)جوکابینہ میں پیش کی گئی ہے، اسے پی ٹی آئی کی جانب سے ہی مخالفت کا سامنا ہے۔

باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی خواہش ہے کہ پی ٹی آئی کے ایجنڈے پر عمل درآمد ہو جو کہ سول سروسز میں اصلاحات سے متعلق ہے ، جس میں اسے سیاست سے پاک کرنا بھی شامل ہے۔تاہم انہیں اپنے وزراءکی مکمل حمایت حاصل نہیں ہے۔ان میں سے کچھ کا اصرار ہے کہ بیوروکریٹس کی مدت کو توسیع دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ انہیں مزید بااختیار بنادیا جائے ، یہاں تک کے وہ اپنے اعلیٰ سیاسی رہنمائوں سے بھی زیادہ طاقتور ہوجائیں گے۔

گزشتہ ماہ کے وسط میں پہلی سول سروس اصلاحاتی تجویز ڈاکٹر عشرت حسین کی قیادت میں ٹاسک فورس نے تیار کی تھی، تاہم اسے ملک کے سب سے بڑے فیصلہ ساز ادارے کی جانب سے منظوری نہیں ملی۔وفاقی سیکرٹریوں کی تقرری اور ان کی مدت کو تحفظ فراہم کرنے سے متعلق تجویز کو وزارتی کمیٹی کو بھجوایا ۔اس تجویز پر کابینہ کے اندر سے ہی سخت مخالفت کی گئی۔چھ ہفتے کی تاخیر کے باوجود وزارتی کمیٹی نے تجویز کو کلیئر نہیں کیا کیوں کہ یہ رپورٹس آئی تھی کہ وزارتی کمیٹی کے اندر ہی وفاقی سیکرٹریوں کی مدت کو تحفظ فراہم کرنے کی مخالفت ہوئی تھی ۔

وزیر اعظم کے تین اعلیٰ معاونین کی کمیٹی ، جس میں سیکرٹری کابینہ، اسٹیبلشمنٹ سیکرٹری اور پرنسپل سیکرٹری برائے وزیر اعظم بنانے کی سفارش کی گئی تھی جو وزیر اعظم کو ہر وفاقی سیکرٹری کی تقرری کے لیے تین موزوں ترین افسران کے پینل کی تجویز دے گا۔جس پر وزیر اعظم تجویز کیے گئے تین افسران میں سے کسی بھی افسر کی وفاقی سیکرٹری کے کسی بھی عہدے پر تقرری کرے گا۔لیکن ایسی صور ت میں کہ جب وزیر اعظم کو تجویز کیے گئے افسران میں سے کوئی بھی عہدے کے لیے موزوں نہ لگے تو کمیٹی نیا پینل تجویز کرے گی۔

اصلاحاتی تجویزمیں وزیر اعظم کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی بھی افسر کی کسی بھی وزارت یا ڈویژن میں سیکرٹری کی حیثیت سے تقرری کرسکیں ، جیسا کہ ابھی انہیں یہ اختیار ہے۔ایک مرتبہ جب وزیر اعظم، سیکرٹری ڈویژن کی تقرری کردیں گے ، جیسا کہ انہیں تجویز دی گئی ہوگی تو اس افسرکی چھ ماہ کی مدت کے لیے آزمائشی تقرری کی جائے گی ، سیکرٹری کو تین سال کی مدت مکمل کرنے کا اختیار ہوگا۔اصلاحاتی تجویز کے تحت اس عمل کے ذریعے جو افسر منتخب ہوگا ، اس کا تین سال کی مدت مکمل ہونے تک تبادلہ نہیں کیا جاسکے گا۔تاہم اگرافسر کے خلاف کرپشن، فرائض میں غفلت،نافرمانی ، بداعمالی یا جو ہدف انہیں دیا گیا تھا اس میں خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ناکامی پر ان کے خلاف تادیبی کارروائی کا آغاز کیے جانے کی صور ت میں اور شواہد سامنے آجانے کی صورت میں ، وزیر اعظم یہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھے گا کہ افسر کو مدت مکمل ہونے سے قبل ہی عہدے سے ہٹادے۔اس طرح کے تبادلے کرتے وقت وجوہات فائل پر لازمی تحریر کی جائیں گی۔

یہ ڈاکٹر عشرت حسین کی پہلی تجویز تھی ، تاہم اسے کابینہ سے منظوری نہیں ملی۔مدت کے تحفظ کو بہت اہمیت حاصل ہے کیوں کہ بیوروکریسی کو جس بڑے مسئلے کا سامنا ہے وہ سول ملازمین کا بار بار تبادلہ کیا جانا ہے۔جس کی وجہ سے سروس متاثر ہوتی ہےکیوں کہ افسران کو اتنا وقت نہیں ملتا کہ وہ اصلاحات لاسکیں یا اسے برقرار رکھ سکیں۔یہ کہا جاتا ہے کہ حکومت کے اہم اقدامات، پالیسیوں ، پروگرامز اور منصوبوں پر مقررہ وقت پر عمل درآمد اس لیے نہیں ہوتا یا منصوبہ مقررہ بجٹ میں مکمل اس لیے نہیں ہوتا کیوں کہ اہم سول ملازمین کی عہدے پر برقرار رہنے کی مدت میں تسلسل نہیں ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں