ایڈورڈسعیدؔ ؛ فلسطین کی آواز

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

 ’’اُس شخص نے اپنے بارہ سالہ بچے کے ساتھ دیوار کی پناہ لینے کی کوشش کی۔ اس کے دائیں جانب اسرائیلی سپاہی اور اُن کے مقابلے میں فلسطینی سلامتی دستے تھے۔ اس کے بالکل سامنے اسرائیلی بیس تھا۔ میں کیا کرسکتا تھا؟ گلی پار کرنا بھی ممکن نہیں تھا۔ گولیاں بارش کی طرح برس رہی تھیں۔ میرے آس پاس جو بچے خوف اور دہشت کے عالم میں سمٹے سمٹائے کھڑے تھے؛ وہ چیخنے لگے۔ اسی دوران میں نے اپنے کیمرہ میں سے دیکھا کہ اُس بچے کو، جو اپنے باپ کے ساتھ فائرنگ سے بچنے کی کوشش کررہا تھا، گولی لگی ہے اور وہ زخمی ہوگیا ہے، فوراً ہی اُس کے باپ کو بھی گولی لگی مگر وہ ہاتھ ہلا رہا تھا، مدد کے لیے پکار رہا تھا، فائرنگ روکنے کی التجا کررہا تھا۔ اس حال میں مجھے کوئی فکر تھی تو یہی کہ جو کچھ مَیں نے شوٹ کیا ہے؛ اُسے سنبھالوں کہ یہ میرا روزگار ہے۔ مگرمجھے اپنی بھی فکر تھی، مجھے علم تھا کہ تصویر قیمتی ہوتی ہے مگر انسانی جان (خود میری جان) سے زیادہ نہیں۔

ابھی مَیں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک سماعت شکن آواز گونجی اور ہر طرف دھواں پھیل گیا۔ دھواں پھیلنے سے پہلے تک وہ بارہ سالہ لڑکا زندہ تھا۔ دھواں چھٹ گیا تو دیکھا کہ وہ لڑکا اپنے باپ کی گود میں ہے اور فوت ہوچکا ہے۔ باپ اب دیوار سے لگا ہوا تھا، بے حس و حرکت۔

جب مَیں نے دفتر واپس جانے کے لیے قدم بڑھائے تو ایک نیوز ایجنسی کے صحافی کو پیدل چلتے ہوئے دیکھا، میں نے اس سے پوچھا کتنی ہلاکتیں؟ اس نے کہا: تین۔ میں نے کہا: ان میں دو اور جوڑ لو۔

یہ کہتے ہوئے میں نے اُسے باپ اور بیٹے کا ویڈیو دکھایا۔ وہ اُس ویڈیو کو دیکھ کر حواس باختہ ہوگیا، اس کی زبان سے نکلا: اُف خدایا، یہ تو جمال ہے اور یہ محمد، یہ لوگ بازار گئے تھے۔ میں نے دریافت کیا، کیا تم انہیں جانتے ہو؟  اُس نے کہا: ہاں، یہ میرا بہنوئی اور بھانجا ہے۔‘‘(بحوالہ روزنامہ انقلاب)

یہ 30ستمبر 2000ء کے اُن واقعات کی روداد ہے جو غزہ کے رہنے والے صحافی طلال ابو رحمہ نے بیان کی تھی۔ وہ فرانس 2 (ٹی وی) کے لیے کام کرتے تھے۔ باپ کا نام جمال الدرۃ اور بیٹے کا نام محمد الدرۃ تھا۔

اُس دور میں مذکورہ تصویر پوری دُنیا کے اخبارات میں چھپی جبکہ کئی بڑے جریدوں نے اسے اپنے صفحہ اول پر جگہ دی تھی۔ اہل فلسطین اسے ’انتفاضہ دوم‘ کی سب سے زیادہ موضوع بحث بننے والی اور تاریخی تصویر مانتے ہیں۔

ویڈیو سے لی گئی سلسلہ وار تصاویر میں صاف دیکھا جاسکتا تھا کہ کس طرح محمد کو گولی لگی اور وہ گرنے لگا، اس کے بعد اُس کے باپ کو گولی لگی۔ محمد کا والد جمال الدرۃ زخمی ہوا تھا مگر اس کی جان بچ گئی تھی۔

گزشتہ دنوں این ڈی ٹی وی کی ایک خبرمیں کہا گیا کہ محمد کی شہادت کے 32سال بعد جمال الدرۃ اَب اپنے خاندان کے دیگر افراد کو رو رہا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ اس کے بیٹے کا خون غزہ پٹی میں آج بھی بہہ رہا ہے، 32سال پہلے بیٹا شہید ہوا تھا، آج اسرائیلی فوج نے اس کے  گھر کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں اس کے دو بھائی، بھابھی اور اس کی بھتیجی، سب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اس کے کئی پڑوسی بھی فوت ہوئے جن میں زیادہ تر بچے ہیں۔ اسرائیلی فوج بچوں کو خاص طور پر ہدف بناتی ہے۔ فلسطین میں اسرائیلی فوج روزانہ ایک بچے کو موت کے گھاٹ اُتارتی ہے۔

  یہ سب فلسطین کا روزمرہ ہے۔ کب کس کو چیک پوسٹ پر روکا جائے گا، کب کس کی تلاشی لی جائے گی، کب کس مکان پر بلڈوزر چل جائے گا، کب کون سا علاقہ فائرنگ کی آواز سے گونجنے لگے گا، کوئی نہیں جانتا۔

اِن دنوں غز ہ پر وحشیانہ بمباری جاری ہے تو ہم وہاں کی خبریں پابندی سے سن رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں۔ کل جنگ رُک جائے گی اور حالات ’معمول‘ پر آنے لگیں گے تو ہم بھی معمول پر آجائیں گے؛ مگر وہ خطہ جسے فلسطین کہا جاتا ہے اور جو صرف غربِ اردن اور غزہ پر سمٹ گیا ہے، کبھی معمول پر نہیں آتا۔ وہاں جنگ مسلسل جاری رہتی ہے خواہ چھوٹی ہو یا بڑی، خبروں میں جگہ پائے یا نہیں، خون بہے یا مختلف وارداتوں کی وجہ سے جسم میں منجمد ہوجائے۔

یہ الم ناک کہانی ہے،الم نصیب انسانوں کی۔ جی ہاں، یہ ’مہذب‘ دنیا کا ایک گھناؤنا چہرہ ہے۔

آخرجنگ کس بات کی؟ کشت وخوں کی یہ ہولی کیونکر؟ آزاد دنیا میں غلامی کی یہ بے رحم زنجیر کس واسطے؟۔۔۔۔ کیوں؟ کیا؟ کب؟ کس لیے؟ ان سب سوالوں کا جواب ایک غیرمتعصب فلسطینی عیسائی، ایک باغیرت فلسطینی شہری ایڈورڈ سعیدؔ کی تحریروں، تقریروں میں پوشیدہ ہے۔

   ایڈورڈ سعیدیروشلم میں پیدا ہوئے۔ اُنھوں نے ابتدائی اور ثانوی تعلیم بیت المقدس اور مصر کے سکولوں میں حاصل کی، پھر وہ امریکا چلے آئے۔ انھوں نے بی اے پرنسٹن یونیورسٹی میں کیا۔

ایڈورڈ سعید نے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں اسی یونیورسٹی سے حاصل کیں۔ یہاں انھوں نے Bowdoin انعام بھی حاصل کیا۔ 1974ء میں

ایڈورڈ سعید ہارورڈ یونیورسٹی میں تقابلی ادب کے مہمان پروفیسر تھے۔ 1975-76ء میں انھوں نے سٹین فورڈ یونیورسٹی کے نفسیات اور کرداری علوم کی اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں فیلو کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔

1977ء میں پرنسٹن یونیورسٹی میں ادبی تنقید پر لیکچر دیے۔ 1979ء میں وہ ایک اور مشہور امریکی یونیورسٹی جان ہاپکنز کے شعبہ انسانیات میں مہمان پروفیسر تھے۔ بعدازاں نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں انگریزی اور تقابلی ادب کے پروفیسر رہے۔ انھیں مشہور ناول نگار کونریڈ پر سند تسلیم کیا جاتا ہے۔

ایڈورڈ سعید کی کتب آٹھ زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور یورپ، افریقہ، ایشیا اور آسٹریلیا میں چھپ چکی ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی نے اپنا پہلا سالانہ ٹریلنگ (Trilling)انعام انھیں ان کی کتاب ’’Beginnings: Intentions And Method‘‘ پر دیا۔ 1978ء میں امریکا کے نیشنل بک کرٹکس سرکل ایوارڈ کے شعبہ تنقید کے مقابلے میں ان کی کتاب ’’Orientalism‘‘ دوسرے نمبر پر آئی۔

ان کی دیگر کتب میں ’’Literature and Society‘‘ اور ’’Conrad and the Fiction of Autobiography‘‘ شامل ہیں۔ محمد حسن عسکری اور فیض احمد فیض نے ایڈورڈ سعید کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا ہے۔ خود ایڈورڈسعید نے بیروت میں فیض احمد فیض سے اپنی ملاقات کا ذکر بڑے پیار سے اپنے ایک مضمون میں کیا ہے۔ یہ مضمون انگلستان کے ایک رسالے ’گرانٹا‘ میں شائع ہوا تھا۔

فلسطینیوں کا پُرزور طریقے سے موقف پیش کرنے کی پاداش میں صیہونی ان پر زبانی ہی نہیں بلکہ جسمانی حملے بھی کر چکے ہیں۔ ایڈورڈ سعید فلسطینی قومی کونسل کے رُکن بھی رہے۔ اُن کی وفات 25ستمبر 2003ء کو نیویارک شہر میں ہوئی۔

ایڈورڈ سعید ؔ تحریر،تقریر اورعمل کی تینوں سطحوں پر بیسویں صدی کے نصف دو م کی ایک نہایت قابل اورسرگرمِ عمل شخصیت کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ مابعد نوآبادیاتی مطالعات میں اُن کاغیرمعمولی و اہم رول ہے۔

شرق شناسی کے نظریات میں ایڈورڈ سعید مجموعی طور پر بہت سے دانشوروں؛ فلاسفروں اور نقادوں کے اثرات قبول کرتا ہے، جن میں نمایاں طورپر جین پال سارترؔ (1905-1980 )، مشل فوکوؔ (1926-1984)، اینٹونیوگرامسکی (1889-1937) اور جوزف کانراڈؔ (1857-1924) شامل ہیں۔

ایڈورڈ سعید کے نزدیک مستشرقین نے نوآبادیات کے دوران میں اپنی سامراجی حکومتوں کے لیے لازوال کردارادا کیا۔ انہوں نے محکوم لوگوں کو یہ باورکرایا کہ نو آبادیات ہی ان کے لیے خوشحالی، امن اور ترقی لائے گا۔ نو آبادیات کے وقت برطانیہ اور فرانس میں مشرقی علاقوں پر قبضہ کرنے کی دوڑ موجود رہی۔

ایڈورڈؔ سعید نامور یورپی مستشرقین کے نظریات، ان کی تصانیف پر تجزیہ پیش کرتا ہے، جنہوں نے شرق شناسی کو ایک خاص سمت دی۔ ان میں نامور برطانوی مستشرق آرتھرجیمزبالفورؔ (1848-1930) شامل ہیں۔

بالفور نے اپنی غیرمعمولی علمی، سیاسی اور سماجی حیثیت کی وجہ سے برطانوی سیاست میں اہم کردار اداکیا۔ وہ نوآبادیات کی تائید کے حق میں یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ یورپ اپنے بہترین دماغ یعنی دانشور اور ماہرین مقبوضہ علاقوں میں بھیج کر عوام کے اندر شعور اور علمی بصیرت پیدا کرتا ہے۔ محکوم علاقوں پرحکمرانی کرنا مغرب کا احسان ہے۔

ایڈورڈؔ سعید، بالفورؔ کے نو آبادیات کے متعلق نظریات پرتنقید کرتا ہے۔ بقول ان کے مصرمیں برطانیہ کی موجودگی خالص سامراجی مقاصد کے تابع تھی۔ سعیدؔ کے حوالے سے نیرؔاپنے خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں:

”Said’s major contribution was to see colonialism as rooted in a epistimological inquiry and project:constructing the orient.’Orientalism’ is this European construction of the east as primitive,savage,pagan,undeveloped and criminal.such a construction then enabled the European to justify his presence,the poor,weak native needed to be governed and’developed’,and it was the task of the European to do so.Oriental’reality’ is interpreted in particular ways,Ways that are usable by the Europeans.Thus,Hindu and Islamic religious texts and beliefs are constructed with in this discourse as pagan,primitive and requiring reform.”(Contemporary ,literary and cultural Theory; Pg 160.61)

سعیدؔ کوعالمی شہرت 1978 میں شائع ہونے والی ان کی دو کتابوں Orientalism اورThe Question Of Palestineسے ملی۔ فوکوؔ ، فرانزفیننؔ ، ریمنڈولیمسؔ اور ابراہیم ابولگورؔ سے متاثر 32سالہ ادب کے معلم کی ان کتابوں میں مغربی سائنسی روایت سے جرح کرتے ہوئے یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح مغربی عالموں کے ذریعے (مشرق کے لوگوں) خصوصاً عرب لوگوں، ان کے معاشروں اور تہذیبوں کے بارے میں پیدا کردہ گیان نے مشرق کے ملکوں پر مغرب کی نوآبادیاتی جکڑ کو مضبوط کرنے کا کام انجام دیا ہے، کیسے مغرب کے بہترین مفکر، فنکار اور ادیب جانے انجانے مشرق کی کمتری اور نرالے پن (Myth) بنانے میں شامل رہے ہیں، جو مغربی سامراج پرستی اورمشرق کی غلامی کو جواز فراہم کرتا ہے اور کس طرح یورپی نشاۃ ثانیہ کی قدریورپ کو نو آبادیاتی نظام سے گتھی رہے ہیں۔

سعیدؔ کی تمام ترتصنیفات میںOrientalismایک مخصوص اہمیت کی حامل ہے۔ انہوں نے مشل فوکوؔ کی ’’Truth, Knowledge, Power‘‘کے نظریے سے استفادہ کرتے ہوئے اس کتاب میں مشرق پر مغرب کے کنٹرول کی توضیح کرنے کی کوشش کی ہے۔

امپیریل کلچر پرسعیدؔ سے پہلے فرانز فیننؔ نے اپنی کتاب(1961) میں یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ کولونیلزم کسی قوم کے ماضی اور حال کی اپنی ایجنڈے کی مطابق ازسرنو تعمیرکرنے کا کام کرتا ہے۔ چنانچہ Colonizedکا پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے اصل ماضی کی بازیافت کرے۔ استشراق کی توضیح کرتے ہوئے سعیدؔ نے انٹونیو گرامسکیؔ کے Hegemonyکے تصور کا سہارا بھی لیا ہے، جس میںcivilاور Politicalسوسائٹی میں فرق کیا گیا ہے۔

   مابعد نوآبادیاتی تنقید کی ابتداء باضابطہ طورپر ایڈورڈؔ سعید کی اسی کتاب کے ساتھ ہوئی اور آج یہ ایک معتبر حوالے کے طورپر سامنے آتی ہے۔

سعیدؔ کی یہ کتاب یورپی اور مغربی مرکزیت کی نفی کرتی ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ سعید نے اس موضوع پر پہلی دفعہ بات کی ہو۔ دنیا میں اس سے پہلے بھی مستشرقین کی ایک پوری صف اس سے واقف ہو جس میں مؤرخ ، ماہر لسانیات اور زبان شامل تھے لیکن پہلی بارسعیدؔ نے ٹھوس نظریاتی بنیادوں پر مغرب کے تصور میں مشرقیت کے مقام پر پڑے ہوئے دبیز پردوں کو مدلّل انداز میں اُٹھایا۔

  مسئلہ فلسطین کئی دہائیوں سے حل طلب ہے۔1880 کے عشرے کے اوائل میں صیہونی نوآبادکاروں کے اولین قافلے فلسطین کے ساحلوں پر وارد ہونے لگے اور1967ء تک وہ اس زرخیزعلاقے پر اپنا جبری قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

ایک فلسطینی نژاد ہونے کے سبب ایڈورڈ سعیدؔ نے مغرب کی چیرہ دستیوں اور یہود کے جبری قبضے کے خلاف تحریری احتجاج درج کیا۔ سعید نے اپنی کتاب The Question Of Palestine(1978)جس کا اردو ترجمہ’مسئلہ فلسطین ‘ ‘(1989ء) کے نام سے ہوا ہے؛ میں نوآباد کارکے سیاہ چہرے سے پردہ کشائی کی ہے۔ یورپ و امریکا کے دوہرے معیارات اور تعصب کو ڈنکے کی چوٹ پر واضح کیا ہے۔

ایڈورڈ سعیدؔ نے مذکورہ کتاب میں جن بنیادی مباحث جیسے صیہونیت کیا ہے؟ یہ کہاں سے آئی؟ یہودیوں نے اس کے فروغ کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے؟ مغربی سیاست دانوں نے مکر و فریب کے کیا کیا جال بچھائے؟ نام نہاد لبرل دانشوروں، ناول نگاروں، شاعروں، مقالہ نویسوں، سفرناموں کے مصنفوں اور صیہونیت کے دیگر ہمدردوں نے کیسے فضا ہموار کی؟ خود صیہونیوں نے فلسطین میں آباد ہونے کے لیے کن کن جتنوں سے کام لیا اور اپنے دعاوی کو سچا ثابت کرنے کے لیے کن کن تاویلوں کا سہارا لیا؟

جب اسرائیل قائم ہو گیا تو فلسطینیوں کو کیسے ملک بدر کیا گیا؟ اور تمام تر دعووں کے باوجود انھیں آج تک کیسے درجہ دوم کے شہری بنائے رکھا گیا؟ فلسطینیوں نے تحریکِ آزادی کیسے منظم کی اور فلسطینی شاعروں، کہانی نویسوں، دوسرے ادیبوں، مصنفوں اور دانشوروں نے کیسے اس تحریک کے لیے زمین ہموار کی اور اس کی آبیاری کی؟

پی ایل او اور دوسری تحریکیں کیسے وجود میں آئیں؟ جنگ سڑسٹھ کے کیا نتائج مرتب ہوئے؟ کیمپ ڈیوڈ کے معاہدے نے کیا گُل کِھلائے؟ فلسطینیوں کے نقطہ نظر سے فلسطین کے مسئلے کا کیا حل ممکن ہے؟ کو اپنی کتاب کا موضوع بنایا ہے اور ان پر جو سیر حاصل بحث کی ہے، وہ ہمیں اس مسئلے کو اس کے صحیح تناظر میں دیکھنے میں بہت مدد دیتی ہے۔

ایڈورڈ سعید نے اپنی یہ کتاب صیہونیت کے اصل چہرے سے نقاب سرکانے اور اس ضمن میں مغرب کے نام نہاد لبرل سیاست دانوں اور دانش وروں نے جو مکروہ کردار ادا کیا ہے، اس کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑنے کی غرض سے لکھی تھی۔

وہ اپنے اس مقصد میں کہاں تک کامیاب رہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صیہونیوں نے یہ کتاب ہی بازار سے غائب کرا دی تھی۔

ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر، سکالر
ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر، سکالر

سعیدؔ اس اصول کے حامی ہیں کہ کسی انسان یا قوم کو کسی صورت میں بھی اپنے، وطن، قومی شناخت یا ثقافت سے محروم نہیں کیا جانا چاہیے۔ سعیدؔ کی آواز میں درد پوشیدہ ہے،لاکھوں فلسطینیوں کی صدا بن کر وہ ’مہذب‘ دنیا سے مخاطب ہیں:

          ’’میں ایک بات کا ذکر، جو اظہرمن الشّمس ہے، اس لیے کررہا ہوں تاکہ اس بنیادی وجودی اصول کی اہمیت واضح ہوسکے جس پر میرے خیال کے مطابق ایک قوم کی حیثیت سے ہمارے تجربے کا انحصارہے۔

ہم ایک سرزمین میں رہتے تھے جسے فلسطین کہا جاتا تھا۔ ہمیں جس طریقے سے بے دخل کیا گیا اور جس طرح ہمارا وجود مٹانے کی کوشش کی گئی، کیا یہ باتیں محض اس وجہ سے جائز تھیں کہ ان یہودیوں کو، جو نازیت کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئے تھے؛ سہارا دیا جاسکے؟ (یہودیوں کو سہارا دینا قابل تعریف بات سہی لیکن) اس عمل میں ہم میں سے قریباً دس لاکھ فلسطینیوں کواپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا اور ہمارے معاشرے کو ناموجود بنا دیا گیا۔

وہ کون سا اخلاقی یا سیاسی معیار ہے جس کی بنا پر ہم سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ہم اپنے قومی وجود؛ اپنے وطن اور اپنے انسانی حقوق اور دعاوی سے دست بردار ہو جائیں؟ جب ایک پوری قوم کو یہ ’مژدہ‘ سنایا جاتا ہے کہ وہ قانونی اعتبارسے غیرحاضر ہے بلکہ اس کے خلاف فوجیں بھی استعمال کی جاتی ہیں تاکہ اس کا نام و نشان مٹایا جاسکے۔ اس کے نام کے خلاف مہمیں چلائی جاتی ہیں، اس کی تاریخ تبدیل کی جاتی ہے تاکہ دنیا کو یہ باور کرایا جاسکے کہ اس کا تو کوئی وجود ہی نہیں، تو پھر ہمیں یہ بتایا جائے کہ وہ کون سی دنیا ہے جہاں اس قسم کی باتوں اور ہتھکنڈوں کے خلاف کوئی دلیل کام نہیں آ سکتی؟‘(مسئلہ فلسطین؛ص18)

استعماری فکرکے علمبرداروں کی اس سوچ پر کہ وہ دنیا میں تہذیب، انسانیت اور ترقی کو فروغ دینے کے لیے ہی ’غیرآباد‘ یا ’غیر مہذب‘ اقوام پر چڑھائی کرتے ہیں؛ تنقید کرتے ہوئے سعید فلسطین کے حوالے سے رقمطراز ہیں:

’’صدیوں سے اس سرزمین پرایک بہت بڑی اکثریت آباد تھی جو اگرچہ زیادہ تر گلہ بانوں اور کاشتکاروں پرمشتمل تھی تاہم اسے معاشرتی؛ ثقافتی؛ سیاسی اور معاشی طور پر ایک قوم کی حیثیت سے شناخت کیا جا سکتا تھا۔ اس قوم کی اکثریت کی زبان عربی اور مذہب اسلام تھا۔ یہ قوم اپنی شناخت اس سرزمین کے حوالے سے کرتی تھی ؛جس کے سینے کو چیرکر یہ اناج اور دوسری فصلیں کاشت کرتی تھی اور جس پر یہ اپنے جانور چَراتی تھی۔۔۔‘(ایضَاً ص32)

فلسطین کوئی اجاڑ؛ غیر آباد یا بنجر زمین نہیں تھی کہ جس پرقبضہ کرکے کوئی تجربہ کیا جاتا یا ’غیرمہذب‘ انسانوں کو مہذب بنانے کی سعی کی جاتی۔ فلسطین ساتویں صدی عیسوی تک ایک عرب اور مسلم ملک بن گیا تھا۔ تمام عالمِ اسلام اس کی زرخیزی و خوبصورتی کی بنا پر؛ اوراس کی مذہبی اہمیت کے پیش نطر بھی، اس کی حدود اور خصوصیات سے شناسا ہوچکا تھا۔

ایڈورڈسعید نے ژائی لے سترانژؔ کی کتاب’Palestine under the Muslims:A Description of Syria and Holy Land from  A.D 650 to 1500’کا حوالہ دے کرلکھاہے کہ:

  ’’فلسطین شام کے صوبوں کا انتہائی مغربی صوبہ ہے۔ اس کی طویل ترین لمبائی رفحہ سے شروع ہوتی ہے اورحجّون کی سرحد پرختم ہوتی ہے۔ ایک گھوڑسوار کو یہ مسافت طے کرنے میں دو دن درکار ہوں گے۔۔۔ بارشیں اور شبنم فلسطین کی آبیاری کرتے ہیں۔ اس کے درخت اور مزروعہ اراضی مصنوعی آب پاشی کے محتاج نہیں۔

صرف نابلس میں آپ دیکھیں گے کہ آبِ رواں اس مقصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ فلسطین شامی صوبوں کا زرخیز ترین صوبہ ہے۔ اس کا صدر مقام اور سب سے بڑا شہر رام اللہ ہے لیکن آبادی اور حجم کے اعتبار سے بیت المقدس اس کے تقریباً ہم پلہ ہے۔ اپنے چھوٹے حجم کے باوجود فلسطین میں تقریباً بیس مساجد ایسی ہیں، جہاں جمعہ کا خطبہ دیا جاتا ہے اور نماز پڑھائی جاتی ہے۔‘(مسئلہ فلسطین؛ص36)

  ژائی لے سترانژؔکی مذکورہ کتاب دراصل قدیم مسلم جغرافیہ دانوں کی تحریروں کے تراجم پرمشتمل ہے۔ قدیم فلسطین کس درجہ آباد تھا اور مسلمانوں کی خوشحالی کا مذکورہ نقشہ مسلم جغرافیہ دان ابن ہنکلؔکی تحریرکا ترجمہ ہے۔

معلوم ہوا کہ یہ شہرمعاشی طورپربھی مستحکم تھا اورعقیدے کے اعتبار سے، صدیوں سے ہی اکثریت میں یہ مسلمانوں کا مسکن رہا ہے۔1516 میں فلسطین خلافتِ عثمانیہ کا صوبہ بنا۔ اس کے ایک سو سال بعد ایک انگریز شاعر جارج سینڈزؔ نے فلسطین کا نقشہ بدیں الفاظ کھینچا ہے:

ارض فلسطین

 ’’یہ وہ سرزمین ہے جہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔ یہ قابلِ آباد عالم کا قلب ہے، اس کی آب و ہوا معتدل ہے۔ یہ خوبصورت اور دلفریب پہاڑوں اور زرخیز وادیوں سے آراستہ ہے۔ اس کی چٹانوں سے فرحت بخش پانی بہتا ہے اور اس کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جو مسرت وانبساط یا منفعت سے مبرا ہو۔‘‘(بحوالہ مسئلہ فلسطین؛ص37)

          یہودیوں کے جبری قبضے کو’جائز‘ قرار دینے کے لیے مغرب اور امریکا کے ادباء نے بھی اپنی سی کوششیں کیں۔ ا ٹھارویں اور انیسویں صدی کے دوران میں شاتوبری آں؛ مارک ٹوین(امریکی صحافی)؛ لامارتین(فرانسیسی شاہ)؛ نیوال(فرانسیسی ادیب)؛ ڈیزرائیلی(برطانیہ کا یہودی وزیراعظم، ادیب) نے مشرق کے متعلق جو سفرنامے تحریرکیے ان میں عربوں کو غیردلچسپ اور غیرترقی یافتہ بنا کرپیش کیا گیا البتہ اس حقیقت کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ فلسطین میں عرب باشندے آباد تھے۔ خود اسرائیلی ذرائع کا حوالہ دے کر ایڈورڈ سعید رقمطراز ہیں:

          ’’اسرائیلی ذرائع کے مطابق 1822 میں فلسطین میں آباد یہودیوں کی تعداد چوبیس ہزار سے زیادہ نہیں تھی اور یہ تعداد ملک کی کل آبادی کے، جس کاغالب حصہ عربوں پر مشتمل تھا، دس فیصد سے بھی کم تھی۔‘(ایضاً؛ص34)

          سعیدؔنے بیسویں صدی کی مردم شماری کو بھی پیش کیا ہے۔ مذکورہ مردم شماری کا حوالہ لندن سے شائع ہونے والی رپورٹ”The Anglo Palestine Years Books1947”(مطبوعہ 1948)کا دیا گیا ہے۔ سعید لکھتے ہیں:

          ’’اگرچہ 1882 سے یہود آباد کار مسلسل فلسطین میں داخل ہو رہے تھے لیکن حالت یہ تھی کہ 1948 کے موسم بہارسے چند ہفتے قبل تک، جب اسرائیل کا قیام عمل میں آیا، یہاں عربوں کی بے پناہ اکثریت تھی۔

مثلاً1931 ء کی مردم شماری کے مطابق ملک کی کل آبادی دس لاکھ تینتیس ہزار اور تین سو چودہ تھی۔ اس میں یہودیوں کی تعداد محض ایک لاکھ چوہتر ہزار اور چھ سو چھ تھی۔ 1936 میں یہودیوں کی تعداد بڑھ کر تین لاکھ چوراسی ہزار اور اٹہتّر تک پہنچ گئی تھی، جبکہ کُل آبادی تیرہ لاکھ چھیاسٹھ ہزار اور چھ سوبانوے تھی۔

1946 میں کل آبادی انیس لاکھ بارہ ہزار اور ایک سو بارہ تھی اور اس میں یہودیوں کی تعداد چھ لاکھ آٹھ ہزار اور دو سو پچّیس تھی۔‘(ایضاً ؛ص37)

          یہود رہنماؤں کے مکر کو بھی سعیدؔ نے گاہے گاہے واضح کیا ہے۔ تھیوڈورہرزل(1860-1904) جو کہ آسٹریا کا ہنگری نژاد شہری تھا اور اسے ہی ’صیہونیت‘ کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ پیشے کے اعتبارسے صحافی تھا اور صیہونیت کی بنیادی دستاویزات اسی کی تحریرکردہ ہیں۔

تھیوڈورہرزل

اس کاحوالہ دے کر سعیدؔ لکھتا ہے کہ 1895 میں اس نے اپنے روزنامچے میں تحریرکیا کہ فلسطین کے متعلق کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ اس ضمن ہرزلؔ نے جوالفاظ استعمال کیے، وہ یوں تھے:

          ’’ہمیں مفلس اور قلاش آبادی کو ان کے اپنے ملک میں روزگار کے ہر قسم کے ذرائع سے محروم کرنا ہوگا اور راہداری کے ممالک میں ان کے لیے معاش کے ذرائع تلاش کرکے انھیں سرحد پار دھکیلنا ہوگا لیکن مفلس اور قلاش لوگوں کی جائیدادیں ہتھیانے اور انھیں ملک بدر کرنے کے عمل میں ہمیں نہایت احتیاط، سلیقے، ہوشیاری اور فرزانگی سے کام لینا ہوگا۔‘(ایضاً؛ص39)

          فلسطین کے اندر اسرائیل کی تشکیل کے لیے جو منصوبے اور ہتھکنڈے استعمال میں لائے گئے وہ کتنے ظالمانہ اور سفاکانہ تھے، اس کی ایک جھلک موشے دایان کے اس بیان سے ابھرکر آتی ہے جو اس نے اپریل 1969 میں ایک اسرائیلی جریدہ ’ہاارے تز‘ کو دیا تھا۔

سعید نے وہ بیان بھی نقل کیا ہے۔ موشے دایانؔ اسرائیل کا مشہورجرنیل اور سیاستدان تھا۔ فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ کئی سال اسرائیل کا وزیرخارجہ رہا۔ یہودیوں کی دہشت گرد تنظیم ’ہگانہ‘ کا سربراہ بھی رہ چکا ہے؛ اپنے بیان میں وہ کہتا ہے:

          ’’ہم اس ملک میں وارد ہوئے؛ جہاں پہلے ہی عرب آباد تھے اور ہم یہاں ایک عبرانی یعنی یہودی مملکت قائم کر رہے ہیں۔ اس ملک کے کافی علاقوں میں ہم نے عربوں سے زمینیں خریدیں۔ ہم نے عرب دیہاتوں کی جگہ یہودی گاؤں تعمیرکیے، آپ تو ان عرب دیہاتوں کے نام بھی نہیں جانتے اور اس لاعلمی کے لیے میں آپ کو مورد الزام بھی نہیں ٹھہراتا کیونکہ اب جغرافیہ کی وہ کتابیں ہی نا پید ہوچکی ہیں جن میں ان عرب دیہاتوں کا ذکر تھا۔

موشے دایان

نہ صرف یہ کہ یہ کتابیں ناپید ہوچکی ہیں بلکہ خود عرب دیہات بھی ناپید ہوچکے ہیں۔ جہاں پہلے ’مہابوں‘ تھا؛ وہاں ’نہالال‘ (دایان کا اپنا گائوں) ابھرا۔ ’جبہ‘ کی جگہ ’جبوت‘نے؛’حنیفس‘کی جگہ ’سرید‘ نے اور ’تل شمعان‘ کی جگہ ’کیقارکیہوشوا‘ نے لے لی ہے۔ اس ملک میں ایک بھی مقام ایسا نہیں جہاں پہلے عرب آبادی موجود نہیں تھی۔‘(ایضاً؛ص41 )

          ایک اسرائیلی پروفیسر؛ جس کا نام شہاک ہے، اسرائیلی دہشت گردوں کی اس وحشیانہ کارروائی پر بے حد رنجیدہ تھا۔ اس نے ایسے چارسو دیہات شمار کیے ہیں جنھیں ملیامیٹ کیاگیا۔

وہ کہتا ہے کہ ان دیہاتوں کو اپنے مکانات؛ باغات کی دیواروں بلکہ قبرستانوں اور قبروں کے کتبوں سمیت نیست و نابو د کیا گیا۔ تباہی و بربادی کی یہ داستان یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ اعداد وشمارکے مطابق 1948 میں تقریباً سات لاکھ اسّی ہزارعرب فلسطینیوں کو اپنے گھروں اور جائیدادوں سے محروم اور بے دخل کیا گیا تاکہ فلسطین کی ’تشکیلِ نو اور تعمیرِنو‘ کے کام کو سہل بنایا جاسکے۔(مسئلہ فلسطین ؛ص42)

          اسرائیل کی تشکیل کے بعد جو فلسطینی علاقے اسرائیل کے قبضے میں آگئے وہاں قومی علوم و تہذیب نشانۂ تضحیک و ملامت بنائی جارہی تھی۔ نئی تعلیم نے مادی اور روحانی زندگی میں شدید کشمکش پیدا کردی اور سارے مادی وسائل چھیننے کے بعد فلسطینیوں سے اُن کامذہب بھی چھیناجا رہا تھا۔ نظام تعلیم پر منفی اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے سعید لکھتے ہیں:

          ’’نصاب تعلیم اچانک تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ عربوں کے اسکولوں اور ان اسکولوں میں دستیاب سہولتوں کا حال بہت پتلا ہے۔ انھیں ہرممکن طریقے سے یہ سکھایا اور سمجھایا جاتاہے کہ ان کا اور کمتری کا جنم جنم کا ساتھ ہے۔ وہ اس سے کبھی چھٹکارا نہیں پاسکیں گے اور انھیں ہمیشہ تذلیل کُن طریقے سے مملکت پر انحصار کرنا ہوگا۔ اندرونِ اسرائیل جو چار لاکھ عرب باشندے موجود ہیں؛1970ء کے عشرے کے ابتدائی سالوں تک ان میں سے صرف پانچ سو گریجویٹ تھے۔‘‘(مسئلہ فلسطین؛ص221)

          حالانکہ اندرونِ اسرائیل پیشہ ور تعلیمی اداروں میں عرب طلبہ کی تعداد زیادہ تھی لیکن ان اداروں میں ایک منصوبے کے تحت یہودی و غیریہودی طلبہ کے مابین نسبت کا فقدان رکھا جاتا ہے۔ اس ضمن صابری جریس کی رپورٹ ایڈورڈ سعید نے پیش کی ہے، جریسؔ لکھتے ہیں:

          ’’عرب علاقوں میں پیشہ ور تربیت کے صرف انیس اسکول ہیں۔ ان اسکولوں میں1048طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں یہودی علاقوں میں ایسے اسکولوں کی تعداد اڑھائی سو ہے اور 53843 طلبہ زیرِتعلیم ہیں۔ اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے سارے نظام میں عربی پرعبرانی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ عربوں کی تاریخ پر یہودیوں کی تاریخ کو فوقیت حاصل ہے۔ یونیورسٹی کی چار سالہ تعلیم کے پروگرام میں چار سو سولہ گھنٹے آرٹس کے مضامین کے لیے وقف ہیں۔

ان چار سو سولہ گھنٹوں میں صرف بتیس گھنٹے عربوں کی تاریخ کی تدریس کے لیے مخصوص ہیں اور ان میں بھی مسلم ہسپانیہ کی تاریخ کو ہاتھ تک نہیں لگایا جاتا۔۔۔ اس کے برعکس یہودی تاریخ ہر درجے کے طالب علموں کو وسیع پیمانے پر پڑھائی جاتی ہے۔ اور جب عربوں کے متعلقہ موضوعات کی تدریس کی بھی جاتی ہے ؛ تو انہیں ایسے تناظر میں پیش کیا جاتا ہے جہاں زور عربوں کے زوال، بدعنوانیوں اور تشدد پر ہو۔‘‘(بحوالہ مسئلہ فلسطین؛ص21-22)

          واضح رہے کہ صابری جریس کی مذکورہ بالارپورٹ میں ان عربوں کاحال بیان ہوا ہے جو اندرونِ اسرائیل آباد ہیں۔ رہے وہ فلسطینی جو1967ء کی جنگ کے بعد اسرائیل کے زیرِتسلط آئے اور جو مغربی کنارے غزہ میں آباد ہیں؛ اُن کا حال اس سے بھی ابتر ہے۔ (روزنامہ نوائے وقت؛لاہور۔30 جولائی 1986ء؛قدرت اللہ شہاب)

          ایڈورڈسعیدؔ کے اثرات مابعد نوآبادیاتی تنقید پر اساسی نوعیت کے ہیں۔ اس کام کے لیے انہیں تحریک آزادی فلسطین کے مقصد کے ساتھ شاید سیاسی وابستگی سے ملتی رہی۔

سعیدؔ بیسویں صدی کے آخری چوتھائی کے اہم ترین ادبی ناقدوں اورمفکرین میں سے ایک تھے۔ سعیدؔ ایک شخص کانام نہیں تھا، وہ تو سوچنے اور زندہ رہنے کا ایک اسلوب بن چکے تھے۔ غرضیکہ ان کی شخصیت نہ صرف مغرب بلکہ مشرق کے کمزور لوگوں کے لیے حق کی آواز تھی، جس کی گونج رہتی دنیا تک تاریخ کے جھروکوں سے ایک روشنی کی طرح پھوٹتی رہے گی۔

                                                                        ٭٭٭


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں