گریٹ ڈپریشن

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

کیا یہ درست نہیں کہ پاکستانی قوم کی اپر مڈل کلاس بھی گزشتہ پانچ برس سے گریٹ ڈپریشن سے گزر رہی ہے؟ لوئر مڈل کلاس اور اس سے نیچے کے درجات میں رہنے والوں کی بابت تو کچھ بھی مت پوچھیے۔

ان سب کے پیش نظر محض ایک ہی سوال ہے کہ وہ پاکستان میں زندہ کیسے رہ سکیں گے؟ یہ سوال جب کسی نوجوان کے  ذہن میں آتا ہے تو اس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ اس ملک سے  بھاگ نکنے کے لیے دوڑ لگا دیتا ہے۔ پاکستانی قوم نے اس سے زیادہ مشکل معاشی بحران کبھی نہیں دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ قوم خود کو’گریٹ ڈپریشن‘ میں گرفتار محسوس کر رہی ہے۔

پاکستان کے ہر فرد کی حالت بعینہ امریکی خاتون فلورنس اونز تھامسن جیسی ہے۔ آپ گوگل پر انگریزی زبان میں گریٹ ڈپریشن لکھیں گے تو  جہاں کساد عظیم کی داستان سامنے آئے گی، وہاں فلورنس اونز تھامسن کی تصویر بھی ہوگی۔ اس تصویر میں بھوک سے نڈھال دو بچے فلورنس کے دائیں بائیں کندھوں پر سر رکھے کھڑے ہیں، ایک شیرخوار اس کی گود میں ہے جبکہ فلورنس سوچ رہی ہے کہ وہ اور اس کے بچے زندہ کیسے رہیں گے؟

فلورنس اونز تھامسن کا تعلق امریکا کے قدیم اور اصل باسی قبیلے سے تھا جنھیں ریڈ انڈینز کہا جاتا ہے۔ وہ سات بچوں کی ماں تھی۔ انیس سو انتیس سے انیس سو انتالیس تک، جب امریکی قوم سنگین ترین معاشی بحران کا شکار ہوئی تو اس کا زیادہ عتاب  ریڈ انڈینز اور سیاہ فاموں پر ٹوٹا۔

امریکا سے برطانیہ تک، سفید فام محض اس انداز میں متاثر ہوئے جیسے کسی کاروباری کا منافع کم ہوگیا ہو۔ تاہم انھوں نے اس سے بھی خوب فائدہ اٹھایا۔ مثلاً برطانیہ نے ہندوستان میں سونے کے نرخ بڑھا دیے اور کاغذی کرنسی کے بدلے ہندوستان سے سونا خریدنا شروع کردیا۔ ایک اندازے کے مطابق برطانیہ نے دس برسوں میں ہندوستان سے تیرہ سو سینتیس ٹن سونا ہتھیایا۔

دنیا کو گریٹ ڈپریشن میں مبتلا کرنے والے بھی گورے تھے اور اس بدترین معاشی بحران سے فوائد بٹورنے والے بھی یہی گورے تھے۔ انھوں نے کیسے یہ بحران پیدا کیا اور اس کے نتیجے میں کیسے خود مالا مال ہوئے، اس کی تفصیل بہت طویل ہے۔ سردست ہم فلورنس کی کہانی پڑھتے ہیں، جس کی حالت موجودہ پاکستانی قوم جیسی تھی۔

فلورنس اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانے کے لیے بیک وقت ہسپتالوں میں کام کرتی، شراب خانے میں خدمات سرانجام دیتی، اس کے ساتھ ہی ساتھ اسے خون جما دینے والی سخت سردی میں کھیتوں میں بھی کام کرنا پڑتا تھا جہاں وہ سبزیاں توڑتی تھی۔ ایک ہی دن میں اس ساری بدترین مشقت کے بدلے جو معاوضہ ملتا، اس سے  صرف اور صرف اپنی اور بچوں کی بھوک کسی حد تک مٹانے میں کامیاب ہوتی۔ لیکن اس حال میں بھی جینا مشکل ہوگیا۔

دو وقت کی روٹی کی خاطر گھر اور سارا سازوسامان فروخت ہونے پر مجبور ہوگئی۔ اب وہ پھٹے پرانے خیمے میں زندگی گزارنے لگی۔ انسان اس کی ساری کہانی پڑھے تو حیران ہوتا ہے کہ وہ اور اس کے بچے زندہ کیسے بچ گئے۔

اب فلورنس اونز تھامسن جیسی زندگی گزارنے والی پاکستانی قوم کا ذکر کرتے ہیں۔ پانچ سال قبل یہاں کے ’گوروں‘ نے بھی اسے بدترین معاشی بحران میں مبتلا کیا۔ گریٹ ڈپریشن کی طرح یہاں کے گوروں نے بھی اس بحران کے نتیجے میں خوب مال بٹورا اور مسلسل بٹور رہے ہیں۔

ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستانی قوم کے پاس اپنی دو وقت کی روٹی کے لیے پیسے نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود بجلی، گیس، پیٹرول سمیت تمام اشیائے ضروریہ کو روزانہ کی بنیاد پر مہنگے سے مہنگا کیا جاتا رہا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

اب یہاں کے ’گوروں‘ کی زندگی کا احوال سن لیجیے۔ وہ چالیس لاکھ ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں اور جب ریٹائر ہوتے ہیں تو بیرون ملک جا کر رہتے ہیں اور پھر پینشن روپوں میں نہیں بلکہ ڈالروں میں وصول کرتے ہیں۔ ان ’گوروں‘ نے ایسے ادارے بنائے ہوئے ہیں جہاں گریڈ فور کے ملازم کی تنخواہ بھی پانچ لاکھ سے کم نہیں ہے۔

سن دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات سے پہلے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں دیکھ لی جائیں اور اس کے بعد سن دو ہزار انیس، بیس، اکیس، بائیس اور تئیس میں قیمتوں کا چڑھاؤ دیکھ لیا جائے اور پھر اس سادہ سے سوال کا جواب تلاش کیا جائے کہ آخر ایسا کیا ہوا تھا کہ دو ہزار اٹھارہ کے بعد اچانک مہنگائی آسمان پر پہنچ گئی؟

یہ سوال ان پاٹے خان قسم کے ’دفاعی تجزیہ کاروں‘ سے ہے جو دوہزار اٹھارہ سے پہلے آل راؤنڈر تجزیہ کار بنے ہوئے تھے۔ ہر ٹیلی ویژن چینل کے ہر پروگرام میں ایک ایسا ہی پاٹے خان سینہ پھلا کر بیٹھا ہوتا تھا۔

دوسرا سوال کہ اب ایسا کیا کچھ کیا جائے کہ پاکستانی قوم کو گریٹ ڈپریشن سے نجات مل سکے؟ یہ سوال شہباز شریف کی اتحادی حکومت کے پیش نظر بھی تھا،  اور اس کے بعد بننے والے نگراں حکومت کے سامنے بھی ہے۔ یہی سوال آٹھ فروری دو ہزار چوبیس کے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کے لیے بھی سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔

گزشتہ روز ایک خبر ٹیلی ویژن سکرین پر ٹکرز کی صورت گزری کہ نگراں حکومت نے ملکی برآمدات 100 ارب ڈالرز تک لے جانے کی حکمت عملی تیار کرلی ہے۔ رواں مالی سال میں برآمدات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر تک ہے۔ برآمدات بڑھانے کے اس منصوبے میں بڑا ہدف چین کی مارکیٹ ہوگی۔ چین کو جو سامان برآمد کیا جائے گا، اس کا تعلق ٹیکسٹائل انڈسٹری سے بھی ہوگا اور نان ٹیکسٹال انڈسٹری سے بھی۔

خبر میں یہ بھی شامل تھا کہ اس منصوبہ کو ’وژن پاکستان‘ کا نام دیا گیا۔ سنا ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور چینی صدر شی جن پنگ نے اکٹھے بیٹھ کر تیار کیا ہے۔ اس خبر سے اندازہ ہوا کہ ’گورے‘ اب بھی گریٹ ڈپریشن کی ماری ہوئی قوم کو لطیفے سنا کر بہلانے کی کوشش کررہے ہیں۔

اب ایک دوسرا لطیفہ بھی پڑھ لیجیے، فیڈرل بورڈ آف ریوینیو( ایف بی آر) نے جون 2024 تک 20 لاکھ ایسے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ کیا ہے جو  ٹیکس ادا نہیں کرتے حالانکہ ان کی آمدن قابل ٹیکس ہے۔ اگر وہ پھر بھی ٹیکس دینے کو تیار نہ ہوئے تو ان کے بجلی اور گیس کے کنکشنز منقطع کردیے جائیں گے اور ان کی موبائل سمز بلاک کردی جائیں گی۔

اب اگر کوئی یہ پوچھے کہ ان خبروں میں لطیفے والی کیا بات ہے، تو عرض ہے کہ وہ لطیفہ ہی کیا جس کی تشریح کرنا پڑے۔ مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان کے اس عظیم الشان ادارے ایف بی آر کے ہوتے ہوئے ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہوسکتا ہے بھلا؟ ٹیکس کی وصولی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ادارہ ہے۔

اگر آپ اب تک نان فائلر ہیں، کسی روز جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہوکر ایف بی آر کے دفتر کا چکر لگائیں، انھیں بتائیں کہ آپ نے فائلر بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے بعد جو سلوک آپ کے ساتھ ہوگا، وہ آپ کو دن میں تارے دکھا دے گا۔ اگر آپ فائلر ہیں تو پھر آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ایف بی آر والے آپ کو کیسی رعایتی پیشکشیں کرتے ہیں۔

رہی بات پہلے لطیفے کی یعنی ملکی برآمدات ایک سو ڈالر تک لے جانے کی اور اس میں بھی چین پر فوکس کرنے کی، اس کے بارے میں بالکل بھی مت پوچھیے۔ شاید پاکستانی ’ گورے‘ قوم کو ضرورت سے زیادہ بدھو سمجھتے ہیں۔75 برس تک دھوکے کھانے کے بعد قوم اس قدر ضرور جان لیتی ہے کہ جس نے گھر میں بھینس پال رکھی ہے، اسے گوالے کے دودھ کی کیا ضرورت ؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں