ترکیہ-کی-ایک-مسجد

سودا روح و جان کا( حکایت ہجویری)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ایک نوجوان شیخ رویم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض گزاری:

حضرت! مجھے کچھ نصیحت فرمائے‘۔’

حضرت نے نگاہ اٹھا کر نوجوان کی طرف دیکھا۔ کچھ دیر مراقبے میں رہے پھر فرمایا:

‘ برخوردار! اس راہ ( تصوف کی راہ) پر چلنا ہے تو روح و جان کا سودا کر کے چلنا ہے۔ یہ قدرت تم میں اگر نہیں تو پھر کوئی اور راستہ اختیار کر۔

شیخ رویم نے کچھ دیر توقف فرمایا، پھر ایک آیت کی تلاوت فرمائی جس کا مفہوم ہے:

‘ اور جو اللہ کی راہ میں شہید کیے گئے، ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ ( ترجمہ: کنز الایمان)۔

مفہوم

اقبال علیہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو تُو کر

کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریقِ خانقاہی

شاعر مشرق نے اس شعر میں بھی اسی جانب اشارہ کیا ہے کہ اللہ کی راہ اور سلوک و معرفت کا راستہ نظام خانقاہی کا معروف راستہ نہیں ہے۔

سیدنا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے ایک معروف شارح ابو الحسنات سید محمد احمد قادری کے مطابق صوفیا کے یہاں اس ( جسم و جاں) کے سودے کے بغیر جو کچھ ہے وہ سب بے ہودہ اور لغو ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اس راہ پر اس لیے چلنے کا خواہش مند ہے کہ وہ دنیا میں اہمیت پائے، کچھ چمک دمک اس کے حصے میں آ جائے یا کچھ کرتب سیکھ کر وہ دنیا کو متاثر کر لے۔ یہ راستہ ایسے لوگوں کے لیے نہیں ہے۔ یہ راستہ کن لوگوں کے لیے ہے؟ اس سوال کا جواب اس آیت کے ذریعے دے دیا گیا کہ جن لوگوں نے اللہ کی خوش نودی کے بدلے اپنی جان کا سودا کر لیا، وہی مقبول حق ہیں یعنی یہ مشکلات بھرا راستہ ہے جو اس راہ کی آزمائش برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے، وہی یہاں کا رخ کرے۔

(ماخوذ از کشف المحجوب۔ انتخاب، تہذیب و تحریر ڈاکٹر فاروق عادل)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں