عامر-خاکوانی،-اردو-کالم-نگار،-صحافی

شناخت کی مختلف پرتیں ہوتی ہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

میں اپنے مذہب اور عقیدے کے طور پر ایک مسلمان ہوں، میرا وطن اورگھر پاکستان ہے۔ پاکستانی شہری ہونا میری شناخت ہے جبکہ میں ڈومیسائل کے اعتبار سے پنجاب کا رہنے والا یعنی پنجابی ہوں۔ میری زبان اور قومیت سرائیکی ہے جبکہ نسب کے اعتبار سے میں خاکوانی پٹھان ہوں۔ یہی میرا قبیلہ ہے ۔ آخری یہ کہ پروفیشن کے لحاظ سے میں صحافی ہوں۔

    یہ سب میری شناخت کی مختلف سطحیں ہیں، ان میں کوئی تضاد نہیں۔ یہ سب ایک دوسرے میں گھلی ہوئی ہیں، مگر بہرحال یہ سب شناختیں اپنی جگہ موجود ہیں اور ان سب پر ہمارا اصرار باقی رہے گا۔

  میں اپنی ان تمام شناختوں سے محبت کرتا ہوں، ان سے میری وابستگی ہے مگر اس میں کہیں کسی قسم کا تعصب نہیں ہے۔ ہم نے اپنےدین  سے  سیکھا ہے کہ اپنی نسبت، قومیت، قبیلے  وغیرہ سے محبت رکھنا تعصب نہیں بلکہ یہ فطری امر ہے ، البتہ ظلم اور غلط راستے میں ان کا ساتھ نہیں دینا، یہ تعصب ہے۔

   ہم خاکوانی کئی صدیاں قبل افغانستان سے آئے تھے ، بہت سے پٹھان قبیلے وہاں سے آئے ۔ ظاہر ہے پچھلی تین چار صدیوں نےبہت کچھ بدل ڈالا۔ اب یہ سب مقامی ہیں، سادات، اعوانوں کی طرح۔ ہمارے سٹیکس اور مفادات اب اسی خطے پاکستان سے جڑے ہیں جو ہمارا وطن ہے۔

  پاکستان میں رہنے والے بے شمارقبیلے اور قومیں باہر سے آئی ہیں۔ سادات ظاہر ہے حجاز سے آئے۔ اعوان عراق سے آئے، مغل مرزا برلاس وغیرہ کے اجداد سنٹرل ایشین تھے ، بہت سے اور بھی سنٹرل ایشیائی ریاستوں یا ممالک سے آئے۔ پشتون روایتی طور پر بنی اسرائیل کے گمشدہ قبیلے سے تعلق جوڑتے ہیں۔ بلوچ بھی آرین کہلاتے ہیں۔ خود یہاں کے پرانے رہائشی راجپوت وغیرہ بھی کسی زمانے میں باہر ہی سے آئے تھے، یہی معاملہ ارائیوں کا ہے ۔ آرین نسل سے تعلق قائم کرنے والے سب کے اجداد باہر سے آئے تھے ۔

   تاریخی اعتبار سے قدیم باشندے تو دراوڑین ہی تھے جنہیں وقت اور حالات کے جبر نے کھدیڑ کر دور دراز علاقوں تک دھکیل دیا۔ بہت سے ساؤتھ انڈیا میں ہیں یا تھوڑے بہت سندھ میں کول بھیل وغیرہ، بلوچستان کے براہوی شائد دراوڑین ہیں۔

   یہ ذہن میں رہے کہ اب سب کے سٹیکس اور مفادات اپنے اس موجودہ وطن اور دھرتی پاکستان سے جڑے ہیں۔ اگر سادات حجاز سے آئے تھے یا بخارا ، ترمز،شیراز،گیلان وغیرہ سے تعلق تھا تو یہ زمانہ قدیم کی بات ہے ماضی بعید کا قصہ ۔

اب ظاہر ہےسادات کے مفادات ، سٹیکس اور دلچسپی سعودی عرب سے وابستہ نہیں ہوں گی نہ ہی بخاری سادات کی کوئی دلچسپی یا مفاد بخارا شہر یا ازبکستان ملک سے ہوں گی۔ یہی معاملہ پاکستان میں صدیوں سے سیٹلڈ اعوانوں، مغلوں، ارائیوں، عباسیوں یا پٹھانوں کا ہے ۔ سو سمپل ۔

 آج کی حقیقت یہ ہے کہ ہماری بڑی اور نمایاں شناخت پاکستانی ہونے کی ہے۔ دنیا رہتی زندگی تک مجھے پاکستانی ہی تصور کرے گی۔ اگر کوئی غیر ملکی شہریت لے لی تب بھی پاکستانی نژاد ہی کہا جائے گا۔

   میں ایک مسلم پاکستانی ہوں، یہاں بہت سے نان  مسلم پاکستانی بھی رہتے ہیں۔ بطور پاکستانی یہ غیر مسلم بھی افواج پاکستان میں خدمات انجام دیتے رہے، اپنی جانوں کی قربانیاں دیتے رہے۔

  ہر شخص پاکستان کے کسی نہ کسی صوبے میں رہتا ہے، اس کا ڈومیسائل وہاں کا ہوتا ہے۔ میں پنجاب میں رہتا ہوں، لاہور میں مقیم ہوں، اس اعتبار سے پنجابی ہوں۔

  میں پنجابی بولتا ہوں، پنجابی زبان سے مجھے محبت ہے۔ پنجابی موسیقی بے پناہ پسند ہے، پنجابی شاعری سے بہت لگائو ہے، میرے دس بہترین دوستوں کی لسٹ بنائی جائے تو ان میں سے ستر ،اسی فیصد پنجابی ہیں۔ یہ سب مجھے بے حد عزیز ہیں، میرے دکھ درد میں یہی کام آتے ہیں۔

  لاہور مجھے بطور شہر اتنا عزیز اور پسند ہے کہ میں اپنے آپ کو لاہوری کہلانا پسند کرتا ہوں۔  میرے بچے یہاں بڑے ہو رہے ہیں،ان کا شہر لاہور ہے ، احمد پورشرقیہ نہیں۔

    اس کے ساتھ ساتھ سرائیکی میری مادری زبان ہے، میں چاہوں یا نہ چاہوں کلچرل اعتبار سے میں سرائیکی قوم سے تعلق رکھتا ہوں۔

  میں نے جس خاص سرائیکی ماحول، تہذیب، تمدن میں آنکھ کھولی، پروان چڑھا، مخصوص روایتی کھانے کھائے، وہاں کی فوک وزڈم اور فوک کلچر کا حصہ بنا ، وہ غیر محسوس انداز سے شخصیت کے اندر سرائیت کر گیا۔ سرائیکی مونجھ، تنہائی ، سرائیکی حزن، گداز میری ذات کا حصہ ہے۔

  ان سرائیکیوں میں رہتے ہوئے بھی ہم سرائیکی پٹھانوں کی اپنی خاص آن بان، روایات،طرز زندگی اور روایات رہیں۔ ہم غیر شعوری انداز سے انہیں لے کر چلتے (Carry)کرتے ہیں۔ یہ شناخت کی ایک علیحدہ پرت ہے۔

  آپ بہاولپور، احمد پورشرقیہ،رحیم یار خان، ملتان ، ڈی جی خان وغیرہ میں جائیں تو یہ بات سمجھ آ جائے گی، سرائیکیوں میں سے بہت سے پوچھیں گے تساں کون تھیندے ہو(کیا ذات، برادری ہے؟)۔ کوئی جواب میں پٹھان، بلوچ،سید، عباسی، لنگاہ، چغتائی،وارن وغیرہ بتائے گا۔

  یہ سب قابل فہم ہے۔ جیسے لاہور میں اندرون لاہور کے رہنے والے کسی پرانے لاہوری سے بھی پوچھا جاتا ہے کہ وہ کشمیری ہےیا ارائیں یاجٹ، راجپوت وغیرہ۔

  شناخت کی آخری کیٹیگری پروفیشن ہے۔ کوئی ڈاکٹر، انجینئر، وکیل،سافٹ وئیر ڈویلپر، بزنس مین، شیف،تاجر، لوہار، کارپینٹر، ڈرائی کلینگ والا،ہیئر ڈریسر وغیرہ وغیرہ  ہوسکتا ہے، اسی طرح کا پیشہ صحافت ہے۔

   میں ایک پروفیشنل صحافی ہوں جو بائی چوائس صحافت میں آیا۔ جرنلسٹ ہونا میرے نزدیک کوئی ملازمت نہیں بلکہ لائف سٹائل ہے ۔ یہ بیک وقت میرا پروفیشن اور پیشن ہے۔

  میں اردو جرنلزم کا حصہ ہوں، انگریزی جرنلزم کی طرف نہیں گیا۔ ایک خاص سطح پر یہ بھی الگ تقسیم ہے، دونوں کے موضوعات،سٹائل اور طریقہ کار سب مختلف ہے ۔

  ہر صحافی لکھاری نہیں ہوتا، میں خوش نصیبی سے ان لوگوں میں شامل ہوں جنہیں لکھنے کا موقع ملا۔ میں رپورٹنگ میں نہیں گیا، تھوڑا سا نیوز روم میں کام کیا، مگر بنیادی طور پر میگزین جرنلزم کو اختیار کیا، میگزین جرنلسٹوں کی الگ ہی چھوٹی سی دنیا ہوتی ہے ۔

  کم صحافی ایسے ہوں گے جنہیں اخبار میں کالم نگار ہونے کا درجہ ملا۔ ان میں سے مزید کم ایسے ہوں گے جنہیں  ینگ ایج میں کالم لکھنے کا موقع ملا۔ میں تیس، اکتیس سال کی عمر میں ایک بڑے اخبار کا کالم نگار بن گیا۔

    یہ کالم نگار ہونا ایک الگ چھوٹی سی ذیلی سی شناخت ہے۔ اس نے مجھے بہت سے مداحین سے متعارف کرایا، میری تحریر کو پسند کرنے والے کرم فرمائوں سے تعلق جڑا۔ بہت سے لوگ آج کل مجھے  ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم بچپن سے آپ کو پڑھتے آئے ہیں۔ 

  سوشل میڈیا کے بعد ہم لوگ اس طرف بھی آ گئے ۔ میں نے  فیس بک پر بہت زیادہ لکھا۔ یوں سوشل میڈیا رائٹر بن گئے، جدید اصطلاح سوشل میڈیا انفلوئنسر سے متعارف ہوئے۔ کچھ نے ڈیجیٹل میڈیا کو اپنایا۔

  میں نے بھی وی لاگ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اس اعتبار سے میں ڈیجیٹل جرنلسٹ بھی بن گیا، وی لاگر بھی ہوگیا، ممکن ہے آگے جا کر ٹک ٹاک کو میڈیم بنا کر ٹک ٹاکر بھی بن جائیں۔  حالات کا دھارا ہماری مرضی سے نہیں بہتا، یہ اپنے ہی انداز میں صورتحال ڈویلپ کرتا جاتا ہے ۔

  یہ سب لکھنے کا مقصد ہے کہ آپ لوگ سمجھ لیں کہ ایک فرد کی بیک وقت کئی شناختیں ہوتی ہیں،مختلف سطحیں، مختلف پرتیں۔

  ان کا آپس میں تضاد نہیں ہوتا۔یہ ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں، آپس میں گھلی ملی مگر الگ الگ رنگوں کے ساتھ اپنی شناخت برقرار رکھے ہوئے ۔ جیسے آئس کریم کے کپ میں رکھے مختلف فلیورز کے سکوپ ۔ ونیلا، چاکلیٹ، مینگو، پستہ آئس کریم کے رنگوں سے لبریز کپ۔

   ان سب کو سمجھیں، تسلیم کریں، احترام کریں۔ اس سے محبت بڑھے گی۔ جب ان بنیادی چیزوں کو سمجھ لیں گے تو بہت سے باہمی تعصبات ، نفرتیں، کدورتیں ازخود تحلیل ہوجائیں گی، دلوں کی کدورت دھل جائے گی۔

   جب آپ ان چیزوں کو سمجھتے ہوں تب زہریلے شاونسٹوں کے شرانگیز پروپیگنڈے کو سمجھنا اور رد کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

  یاد رہے کہ قوم پرست ہونا کوئی برائی نہیں۔ البتہ شاونسٹ ہونا برائی اور شر ہے۔ شاونسٹ زہریلا، متعصب، گھٹیا، کم ظرف اور دریدہ دہن ہوتا ہے۔ اس کے اندر بغض، نفرت، زہر اور خبث باطن بھرا ہوتا ہے، وہ اسے ہی باہر اگلے گا۔

  قوم پرستوں سے مکالمہ ہوسکتا ہے، ان سے بات کی جا سکتی ہے، گفتگو کے نتیجے میں رائے میں ترمیم ،کمی بیشی ہونا ممکن ہے۔ شاونسٹوں کو صرف رد کیا جاتا ہے۔ انہیں بلاک کرنا اور کنج تنہائی میں دھکیل دینا ہی بنتا ہے۔ یہی کرنا چاہیے ۔

  اللہ پاک آپ کے ، ہمارے، ہم سب کے لئے بہت سی آسانیاں پیدا کرے۔ چیزوں کو ان کی اصلیت اور حقیقت کے مطابق سمجھنے کی توفیق دےاور ہر قسم کے شر سے حفاظت فرمائے، آمین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں