اصغر-خان-عسکری

الیکشن ہو گئے! اب کیا ہونے جا رہا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ8 فروری کو انتخابات ہوں گے۔ سب متفق تھے کہ تاریخ تو دے دی گئی ہے لیکن انتخابات ہوں گے نہیں۔ تمام تر خدشات کے باوجود اتنخابات ہوگئے۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے قومی اسمبلی اور خیبر پختونخوا میں کامیابی حاصل کی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں اکثریت حاصل ہے۔ وفاق میں وہ دوسری پوزیشن پر ہے۔ پیپلز پارٹی مرکز میں تیسری جبکہ سندھ میں پہلی پوزیشن پر ہے۔ وفاق میں اس مرتبہ جے یو آئی (ف) اسی طرح موجود نہیں جس طرح وہ ہوا کر تی تھی۔ استحکام پاکستان پارٹی بھی کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ ایم کیو ایم البتہ مرکز اور کراچی میں موجود ہے۔

لیکن سوال اب یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ اگر مرکزی منظر نامے کو سامنے رکھ کرتجزیہ کیا جائے تو مخلوط حکومت کے بنیادی فریق مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی ہو گی۔ وزیراعظم مسلم لیگ (ن) سے ہوگا۔ جے یو آئی (ف) ، استحکام پاکستان، ایم کیوایم اور قوم پرست ساتھ ہوں گے۔ وزیراعظم کے انتخاب کے بعد دو اور اہم مراحل ہونے ہیں۔ ایک صدر مملکت کا انتخاب اور دوسرا چیئرمین سینیٹ۔ امکان یہی ہے کہ ایوان وزیراعظم کا مکین ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) ایوان صدر کو آصف علی زرداری کے حوالے کرے گی۔ چیئرمین سینٹ بھی پیپلز پارٹی کا ہوسکتا ہے۔ ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ ممکن ہے کہ جے یو آئی (ف) کو مل جائے۔

پنجاب کا وزیراعلیٰ مسلم لیگ (ن) سے ہوگا۔ سندھ کی وزارت اعلیٰ پیپلز پارٹی کے پاس رہے گی۔ بلوچستان میں جے یو آئی اورپیپلز پارٹی کی نشستیں برابر ہیں۔ وہاں آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان آپس میں کچھ کر لیں گے۔ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہوگی۔ یہ سب کچھ ہوجانے کے بعد اگلا مرحلہ چاروں صوبائی گورنرز کے تقرر کا ہوگا۔ پنجاب مسلم لیگ (ن) کا ہوگا۔ سندھ پیپلز پارٹی کے پاس رہے گا۔ خیبر پختون خوا کے لیے جے یو آئی کی کوشش ہوگی کہ ان کے حوالے کیا جائے۔ بلوچستان میں اگر وزارت اعلیٰ جے یو آئی کو دی جاتی ہے تو گورنر پیپلز پارٹی کا ہوگا۔ اگر وزیر اعلیٰ کا عہدہ پیپلز پارٹی کو دیا گیا تو پھر گورنر جے یو آئی (ف) کا ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کی کوشش ہو گی کہ ایم کیو ایم کو مرکز میں اپنے ساتھ ہی رکھیں۔ ایم کیو ایم کی بھی اس دفعہ کوشش ہے کہ پیپلز پارٹی کی بجائے مسلم لیگ (ن) کا زیادہ ساتھ دیا جائے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ ممکنات میں سے ہے بھی کہ نہیں؟ جی ایسا ہوسکتا ہے، اس لیے کہ میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم کی قیادت اب عمر کے اس حصے میں ہے کہ جہاں مزاحمت نہیں مفاہت کی جاتی ہے۔ جہانگیرترین بھی مفاہمت کے بادشاہ ہیں۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے سربراہان بھی اپنے حصے پر راضی ہیں۔ اب وہ کوئٹہ میں مزید رہنے کے لیے تیار نہیں۔ اسلام آباد کی سرکاری رہائش گاہیں ان کو شدت سے یاد آرہی ہے۔

حکومت ابھی وجود میں آئی نہیں ہے لیکن سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا مخلوط حکومت چل جائے گی؟ جی ہاں! مخلوط حکومت نہ صرف چلے گی بلکہ دوڑے گی بھی۔ ہاں آخری چند مہینوں میں ممکن ہیں کہ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر کبھی برسنا اور کبھی جھپٹنا شروع کر دیں، لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوگا کہ وہ حکومت کو گرنے دے گی۔

ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ جس طرح انتخابی مہم کے دوران بلاول زرداری نے میاں نواز شریف کو ہدف تنقید بنایا تو کیا ایک مرتبہ پھر وہ شہباز شریف کا بیگ اٹھانے کے لیے تیار ہوجائیں گے؟ جی ہاں ! آپ تسلی رکھیں ایسے ہی ہوگا۔ چند دنوں کے بعد آپ یہ منظر خود اپنے آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ وزیر اعظم مسلم لیگ (ن) کا ہوگا اور اسی کابینہ کے وزیر بلاول زرداری ہوں گے۔

رہی یہ بات کہ کیا تحریک انصاف اس مرتبہ جذبات میں آکر قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفیٰ دے گی؟ یاد رہے کہ حالات جو بھی ہوں، عمران خان اب پارلیمنٹ سے نکلنے کی بے وقوفی ہرگز نہیں کریں گے۔ وہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف میں بیٹھیں گے۔ قائد حزب اختلاف ان ہی کے جماعت کا ہوگا۔ مستقبل میں کئی ایسی تقرریاں ہونی ہیں، جس میں وزیر اعظم قائد حزب اختلاف کے ساتھ مشاورت کا پابند ہے۔ دو اہم مناصب چیف الیکشن کمشنر اور نیب سربراہ کے تقرر کے لیے وزیر اعظم کا قائد حزب اختلاف کے ساتھ مشاورت کرنا آئینی تقاضا ہے۔

رہی یہ بات کہ کیا اب ملک میں استحکام آجائے گا؟ تو ممکن ہے کہ ایسا ہوجائے۔ تحریک انصاف کو اب سمجھ آگئی ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ ان کا ساتھ دینا بھی فرض ہے ۔ اگر وہ ساتھ نہ ہوں تو پھر مدتوں حزب اختلاف میں ہی بیٹھنا پڑے گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں