یاسر ریاض……….
میں نیم غنودگی کے عالم میں تھا جب اذان کی آواز کانوں میں پڑی۔ ایک خوشگوار حیرت سے میں نے آنکھیں کھولیں اور ارد گرد دیکھا کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔
میں صبح صبح ہی پیرس سے ایک تھکا دینے والا سفر کر کے جنوبی اسپین یعنی ہسپانیہ کے شہر ملاگا پہنچا تھا اور بذریعہ بس غرناطہ کی طرف عازم سفر تھا۔ بس ڈرائیور نے ریڈیو آن کر رکھا تھا ۔ سپینش زبان نہ جانتے ہوئے بھی اتنا اندازہ ہو گیا کی ریڈیو پروگرام میں اذان پر ڈسکشن ہو رہی ہے اور اسی پروگرام میں اذان سنائی جا رہی تھی۔ اسی خوشگوار حیرت کے ساتھ میں آہستہ آہستہ دوبارہ نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
غرناطہ پہنچ کر میں لوکل ٹرانسپورٹ کے ذریعے اندرون شہر روانہ ہوا جہاں میں نے ایک ہاسٹل میں بکنگ کروا رکھی تھی۔ مطلوبہ جگہ پہنچ کر میں کچھ دیر تو گلیوں میں بھٹکتا رہا کیوں کہ گوگل میپ کے مطابق تو میں مطلوبہ جگہ پر پہنچ چکا تھا لیکن یہاں کسی ہاسٹل کے آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ اتنے میں ایک صاحب نے مجھے روک کر پوچھا کہ آپ زکاتین ہاسٹل جانا چاہ رہے ہیں۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو نہ صرف رہنمائی کرتے ہو مجھے ہاسٹل کی طرف لے چلے بلکہ سامان اٹھانے میں بھی میری مدد کی۔
میرا پہلا تاثر یہی تھا کہ یہ صاحب اسی ہاسٹل کے ملازم ہوں گے لیکن حیرت تب ہوئی جب تعارف کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ان کا اس ہاسٹل سے کچھ تعلق نہیں لیکن مجھے پریشان دیکھ کر معاملہ سمجھ گئے اور میری مدد کو آئے۔
وہ غرناطہ ہی کے رہائشی تھے اور اسی مارکیٹ میں بزنس کرتے تھے۔ زکاتین ہاسٹل کی میزبان بھی بہت مہمان نواز تھیں۔ شام میں مجھے الیکٹرک پاور کنورٹر کی ضرورت پڑی تو میں نے میزبان کو ایس ایم ایس کیا۔ محترمہ اپنی ڈیوٹی مکمل کر کے گھر جا چکی تھیں نیز ہاسٹل اس طرح کے آئٹم مہیا نہیں کرتا تھا لیکن میری پریشانی بھانپتے ہوئے گھر سے پندرہ منٹ کا فاصلہ طے کر کے واپس آئیں اور اپنا ذاتی کنورٹر میرے حوالے کر گئیں۔
اگر آپ کو مغربی ممالک میں وقت گزارنے کا موقع نہیں ملا تو شاید ان واقعات میں آپ کے لئے کچھ نیا نہ ہو، کہ ایسی مہمان نوازی مشرق کی روایات کا حصہ ہے لیکن اگر آپ کو یورپ میں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا ہو تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس طرح کی مہمان نوازی وہ بھی ایک اجنبی فرد کے لئے مغرب میں ایک اچنبھے کی بات ہے۔
مادیت پرستی اور انفرادیت پسندی کے ماحول میں جہاں کوئی بھی فرد اپنی طے شدہ ذمہ داریوں سے بڑھ کر کسی اجنبی کے لئے ذاتی وقت اور توانائی صرف کرنے کو تیار نہ ہو، اتنا ایثار ایک بڑی بات محسوس ہوئی۔ شاید اس دن پہلی مرتبہ میں نے اقبال کے ان اشعار کو نہ صرف شدت سے محسوس کیا، بلکہ “میں نے یہ جانا کہ گویا یہ ہی میرے دل میں تھا”۔
جن کی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب
ظلمت یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں
جن کے لہو کے طفیل آج بھی ہیں اندلسی
خوش دل و گرم اختلاط سادہ و روشن جبیں
آج بھی اس دیس میں عام ہے چشم غزال
اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں
بوئے یمن آج بھی اس کی ہوائوں میں ہے
رنگ حجاز آج بھی اس کی نوائوں میں ہے