(ضیا چترالی)
غزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت مغویوں کی رہائی کے دوسرے مرحلے میں فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے مزید 4اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا۔
عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس نے جنگ بندی معاہدے کے تحت 4 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا۔ ترجمان حماس کے مطابق مغوی اسرائیلی فوجی خواتین کے نام لیری الباگ، کرینہ ایریف ، ڈینئیل گلبوا اور نما لیوی ہیں۔

حماس ترجمان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے میں اسرائیلی جیلوں سے 200 فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کردیا گیا۔
ہزاروں کے مجمع میں قابض فوج کی 4 فوجی خواتین ریڈ کراس کے حوالے کر دی گئیں۔ جن کی بدن بولی، چہرے بشرے اور وضع قطع سے شادمانی ٹپک رہی تھی۔ کہیں سے نہیں لگ رہا کہ یہ کسی دشمن کی قید میں تھیں۔ اس حوالے سے غزہ کے ’میدان فلسطین‘ میں ایک شاندار مختصر تقریب منعقد کی گئی۔ جسے نقاب پوش جانبازوں کے دستوں نے گھیر رکھا تھا۔ شہریوں کی بھی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ مغوی سپاہیوں کو نئی فوجی یونیفارم کے ساتھ فلسطینی پرچم سے مزین ڈوری والا کارڈ پہنایا گیا تھا اور حسب سابق تحائف سے بھرے پیکٹ بھی دیے گئے۔
یہ مغوی کہاں رکھے گئے تھے؟
برطانوی جریدے Declassified نے دسمبر میں انکشاف کیا تھا کہ برٹش فضائیہ کے جاسوس طیارے بھی اسرائیلی مغویوں کی تلاش کے مشن میں اسرائیلی ریاست کے پہلو بہ پہلو پروازیں کر رہے ہیں۔ Shadow R1 طیارے یومیہ غزہ کی فضا میں 50 بار اڑان بھرتے ہیں۔ مختلف برطانوی طیاروں نے مجموعی طور پر اسرائیلی قیدیوں کی تلاش میں 16000 پروازیں کیں۔ امریکا کے طیاروں کی پروازوں کا اندازہ 40000 سے زائد ہے۔
دونوں ممالک کے طیارے جنوبی قبرض کے اکروتیری بیس سے اڑان بھرتے رہے۔ انھوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ جاسوس کتوں کے ذریعے غزہ کا چپہ چپہ چھان مارا۔ ہر چند دن بعد پمفلٹ گرا کر اہل غزہ کو لالچ دیا جاتا رہا کہ ہمیں ذرا سا اشارہ کرو کہ قیدی کہاں ہیں، 10 ملین ڈالر ہاتھوں ہاتھ وصول کرو۔ تمہارا نام بھی صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔
وہ کون سا حربہ تھا، جو آزمایا نہیں گیا؟ وہ کون سی ٹیکنالوجی تھی، جسے بروئے کار نہیں لایا گیا؟ وہ کون سا مہلک ہتھیار ہے، جسے نہتے شہریوں پر برسایا نہیں گیا؟
غرض اسرائیل نے قیدی اسرائیلیوں کی تلاش کے لیے ہر ممکن کوششیں کیں، جن میں فوجی اور انٹیلی جنس آپریشنز کے ساتھ ساتھ سفارتی اقدامات بھی شامل تھے۔ ذیل میں ان کوششوں کی مختصر جھلک:
فوجی آپریشنز:
اسرائیلی افواج نے غزہ کی پٹی پر متعدد فضائی اور زمینی حملے کیے تاکہ فلسطینی تنظیموں پر دباؤ ڈالا جا سکے یا قیدیوں کے مقامات کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں۔ ان کارروائیوں میں ایسی جگہوں کو نشانہ بنایا گیا جو ممکنہ طور پر سرنگوں یا چھپے ہوئے ٹھکانوں پر مشتمل ہو سکتی تھیں۔
انٹیلی جنس اور ٹیکنالوجی:
اسرائیل نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا، جن میں ڈرون، جاسوسی آلات، سننے کی ڈیوائسز اور حتیٰ کہ مصنوعی ذہانت بھی شامل ہیں، تاکہ قیدیوں اور ان کی قید کی جگہوں کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں۔ اس حوالے سے گوگل اور آئی ٹی ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیاں ان کے دست و بازو رہیں۔ اس کے علاوہ، زمینی نیٹ ورکس اور مخبروں کے ذریعے بھی معلومات جمع کی گئیں۔
میڈیا اور سیاسی دباؤ:
اسرائیل نے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کو بھی استعمال کیا تاکہ قیدیوں کے مسئلے کو اجاگر کیا جا سکے اور فلسطینی تنظیموں پر دباؤ ڈالنے کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کی حمایت حاصل کی جا سکے۔
خصوصی آپریشنز:
اسرائیلی ایلیٹ یونٹس جیسے ’سیرت میٹکل‘ نے قیدیوں تک پہنچنے کی خفیہ کوششیں کیں، لیکن ان آپریشنز کی تفصیلات اکثر خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ ان میں ایک آپریشن میں انہیں ’بھرپور کامیابی‘ ملی کہ ان کے ہاتھوں اپنے قیدی مارے گئے۔
ان تمام کوششوں کے باوجود، اسرائیل قیدیوں کی رہائی میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکا، جس کی وجہ سے اسرائیلی معاشرے میں ان اقدامات کی مؤثر ہونے اور بحران سے نمٹنے کی حکمت عملی پر شدید بحث و تنقید ہوئی۔ بالآخر وہ گھٹنے ٹیکنے اور حماس کی شرائط مان کر مذاکرات پر مجبور ہوا۔
اس پر دنیا حیران ہے کہ آخر 14 کلومیٹر کی ننھی سی پٹی میں ان قیدیوں کو رکھا کہاں گیا تھا؟ اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
تبصرہ کریں