سفر ایران کی ایک دلچسپ داستان
مسجد جامع صاحبِ زمان
جمعہ کے دن بازار میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ایران میں جمعہ کو عام تعطیل ہوتی تھی۔ سہ پہر ساڑھے تین بجے میں ہوٹل سے مٹر گشت کے لیے نکلا۔ کچھ دکانیں کھل چکی تھیں۔ بے مقصد گلی کوچوں میں بھٹکتے ہوئے، اچانک ایک طرف سے اذان کی آواز ابھری۔ وہی اذان، جس کی آواز جہاں بھی سنو، تمہاری روح جیسے کسی نادیدہ رسی سے بندھی چلی جاتی ہے۔ میں بھی بےاختیار قدموں کو روک نہ سکا۔ مسجد جامع صاحبِ زمان کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی ایک عجیب سی دنیا میں پہنچ گیا۔ وضو کیا ہی تھا کہ جماعت کھڑی ہوگئی۔ میں صف میں جا کھڑا ہوا، مگر یہاں جو کچھ دیکھا، وہ پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔
پہلی ہی نظر میں عجیب لگا کہ امام صاحب محراب میں تھے، مگر محراب جیسے زمین میں دھنس چکی ہو۔ وہ آدھا فٹ گہرائی میں کھڑے تھے اور ہم سب، جو ان کی اقتداء میں تھے، ذرا سی بلندی پر۔ اس نقشے میں کوئی حکمت تھی یا محض معمار کی کوئی فنکارانہ شرارت، میں یہ جان نہ سکا، کیونکہ میری فارسی اس وقت اتنی رواں نہ تھی کہ کسی سے پوچھ سکتا۔
لیکن جو چیز سب سے زیادہ حیران کُن تھی، وہ ایک نوجوان تھا، جو ہاتھ میں مائیکروفون (microphone) لیے، صفوں کے سامنے کھڑا تھا، اور اس کا چہرہ امام کی بجائے ہماری طرف تھا۔ جیسے ہی امام صاحب ’اللہ اکبر‘ کہتے، وہ نوجوان بلند آواز میں تکبیر کو دہراتا۔ جب امام صاحب رکوع میں جاتے وہ نوجوان مائیک میں بہ آواز بلند کہتا : ’سبحانک اللہم و بحمدک۔۔۔‘ اور جب امام صاحب سجدے میں جاتے تو وہ باقاعدہ اعلان کرتا: ’سبحان ربی العظیم۔۔۔‘ گویا وہ کوئی مؤذن نہ تھا، بلکہ ایک ناظمِ نماز تھا، جو امام کے ساتھ ساتھ مقتدیوں کی رہنمائی کر رہا تھا۔ میں نے ایسا منظر کہیں اور نہ دیکھا تھا۔
صف بندی بھی ایک عجیب منظر تھی۔ عام طور پر دیوبندی اور بریلوی مساجد میں نمازی ذرا بے ترتیب اور کھلے کھلے کھڑے ہوتے ہیں، مگر یہاں تو دنیا ہی الگ تھی۔ لوگ اتنی دور دور کھڑے تھے کہ اگر درمیان میں دو اور افراد آ جاتے، تو بھی شاید جگہ بچی رہتی۔ مجھے خیال آیا کہ شاید یہ کوئی انجانی حکمت ہو، کوئی صدیوں پرانی روایت، جو یہاں کے لوگوں کو ورثے میں ملی ہو۔
یہ عصر کی چار رکعتی نماز تھی۔ نماز کے دوران ایک اور چیز نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ امام صاحب کے ساتھ دوسری رکعت کے بعد ہی سلام پھیر کر چل دیے۔ عجیب بات تھی۔ میں نے دل میں سوچا کہ شاید وہ مسافر ہیں، اس لیے قصر نماز پڑھ رہے ہیں لیکن جماعت کے ساتھ نماز شروع کر کے یوں الگ ہو جانا، میرے لیے نیا تجربہ تھا۔ میں نے چاروں رکعتیں مکمل کیں، حالانکہ میں مسافر تھا، مگر میرا ذہن ابھی تک انہی لوگوں کے عمل میں اٹکا ہوا تھا۔
نماز ختم ہوئی، میں مسجد کے صحن میں نکلا تو وہی مائیکروفون (microphone) والا نوجوان میری طرف بڑھا، چہرے پر مسکراہٹ تھی، جیسے وہ کچھ دریافت کرنا چاہتا ہو۔ قریب آ کر بولا:
’کیا آپ شافعی ہیں؟‘
اس سوال کے تفصیلی جواب کے لیے میرے پاس فارسی زبان کا ذخیرہ الفاظ و تراکیب انتہائی محدود تھیں، اس لیے میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ مگر مزید گفتگو میری زبان کی حد بندیوں میں قید تھی۔ میں نے موضوع بدلا اور مسجد کے شاندار طرزِ تعمیر کی تعریف کی۔
’کیا میں چند تصاویر لے سکتا ہوں؟‘ میں نے پوچھا۔
’تمہارے پاس دوربین ہے؟‘ اس نے فارسی زبان میں دلچسپی سے دریافت کیا۔
’دوربین؟‘ میں ٹھٹھک گیا۔ لیکن سیاق و سباق سے سمجھ گیا کہ اس کی مراد کیمرے سے ہے۔ میں نے گردن میں لٹکے Canon کے کیمرے کی طرف اشارہ کیا، جو اس زمانے میں ریل والا کیمرا (Reel camera) ہوا کرتا تھا، کیونکہ ڈیجیٹل کیمرے ابھی بازار میں عام نہ ہوئے تھے۔
وہ کیمرے کو بغور دیکھنے لگا، پھر خوش ہو کر بولا:
’اچھا، تمہارے پاس دوربین ہے!‘
میں ہلکے سے مسکرا دیا۔
’اردو میں دوربین کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔‘ میں نے نرمی سے کہا۔
اس نے حیرانی سے پوچھا:
’واقعی؟ کیا مطلب ہوتا ہے؟‘
’ہم اردو میں ‘دوربین’ اُن عینکوں کو کہتے ہیں جن سے دور کی چیزیں دیکھی جاتی ہیں، جیسے پہاڑ یا ستارے۔‘
وہ ہنسا، پھر سر ہلا کر بولا:
’زبانیں عجیب ہوتی ہیں، نا؟ ایک لفظ، دو دنیا!‘
ہم دونوں ایک لمحے کو خاموش ہو گئے، جیسے کسی ان دیکھے ربط کو محسوس کر رہے ہوں۔ پھر وہ نوجوان مجھے دوبارہ مسجد کے اندر لے گیا اور وہاں چند نمازیوں سے میرا تعارف کروایا کہ میں شافعی مسلک سے تعلق رکھتا ہوں۔
اس نے نماز کے دوران مجھے ہاتھ باندھتے اور رفع الیدین کرتے دیکھ لیا تھا، اس لیے سادگی میں فوراً فتویٰ صادر کر دیا کہ میں شافعی ہوں، حالانکہ میں اپنے آپ کو متبع سنت کہتا ہوں کسی خاص مکتبِ فکر کی تقلید نہیں کرتا۔
میں نے اس سے عربی میں بات کرنے کی کوشش کی، مگر وہ عربی میں روانی سے بات نہیں کر سکتا تھا۔ پھر اچانک، جیسے اس کے اندر مہمان نوازی کی کوئی روایتی شمع روشن ہو گئی ہو، وہ اندر گیا اور ایک ڈبہ لے آیا—ایرانی مٹھائی، وہی شیرینی جس میں زعفران کی خوشبو بسی ہوتی ہے، اور جس کا ذائقہ ہونٹوں سے لپٹ کر دیر تک ساتھ نبھاتا ہے۔
’یہ لو، یہ ہماری سوغات ہے۔‘ اُس نے ڈبہ کھولا اور میری طرف بڑھا دیا۔
میں نے نرمی سے شکریہ ادا کیا اور ایک مٹھائی اٹھا لی۔
’تم ایران میں پہلی بار آئے ہو؟‘
’ہاں، اور یہ تجربہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔‘ میں نے سچائی سے جواب دیا۔
وہ خوشی سے مسکرایا:
’اُمید ہے ہم سے اچھی یادیں لے کر جاؤ گے۔‘
ایک طرف یہ ایرانیوں کی مہمان نوازی کا اظہار تھا، اور دوسری طرف مذہبی طبقے کی جانب سے میرے عقیدے کی ایک خاموش آزمائش تھی—یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا میں اہلِ تشیع کے پکوان سے احتراز تو نہیں کرتا۔
اس مسجد میں نماز پڑھنے کا تجربہ میرے لیے محض ایک نماز ادا کرنے کا نہ تھا۔ یہ ایک اور دنیا میں جھانکنے کا دروازہ تھا۔ ایک ایسی دنیا، جہاں امام محراب میں نیچے کھڑا ہوتا ہے، جہاں صفیں اجنبی فاصلے رکھتی ہیں، جہاں ایک نوجوان مائیکروفون کے ساتھ جماعت کا نظم سنبھالے کھڑا ہوتا ہے، اور جہاں دوربین کا مطلب کیمرا ہوتا ہے۔
تبرّا در تبرّا
میں اس محفل سے اٹھا اور مسجد میں کی گئی کاشی کاری اور نقش نگار کا جائزہ لینے لگا۔ مسجد کی خاموش دیواروں میں ایک گونج تھی، ایک خاموش مگر بلند آہنگ صدائے احتجاج، جو وقت کی پرتوں میں لپٹی ہوئی مجھ جیسے اجنبی کے لیے ایک انکشاف تھی۔ میں نے نوجوان کی اجازت سے کچھ تصاویر کھینچیں، اور جیسے ہی میرا کیمرا قالین کے اس بڑے ٹکڑے کی طرف مڑا جو مسجد کے محراب کے بائیں جانب لٹک رہا تھا، میں ٹھٹھک کر رک گیا۔
یہ محض ایک قالین نہ تھا، یہ ایک اعلان تھا، ایک لکھی ہوئی صدا تھی جو صدیوں کا بوجھ اٹھائے کھڑی تھی۔ فارسی نستعلیق میں جھلملاتی ہوئی تحریر، جو بلا کا حسن رکھتی تھی، اور اس کے اوپر خط ثلث کی کشادہ، بے پناہ پھیلتی ہوئی سطریں، جن میں فارسی زبان میں لکھا تھا:
’زیارتِ عاشورائے امام حسین‘
یہ دعا تھی، یا شاید کوئی صدائے احتجاج، جو ہر سال دسویں محرم کو بلند ہوتی تھی، جو دلوں میں سلگتی، آنکھوں میں آنسو بن کر بہتی، اور زبانوں پر سوز بن کر اترتی تھی۔ میری نظریں دعا کے الفاظ پر اٹک گئیں۔ الفاظ ایک خاص ترتیب میں کندہ کیے گئے تھے—حمد و ثنا، درود و سلام، اور پھر اچانک ایک تیز دھار تلوار کی مانند تبرّا، جو اُموی سلاطین کے خلاف تیز لہروں کی طرح بہتا جا رہا تھا۔ یہ کوئی عام دعا نہ تھی، یہ ایک مکمل ردِ عمل تھا، ایک کربناک تاریخ کا بوجھ، جو نسل در نسل منتقل ہوتا رہا تھا۔ میں حیران کھڑا یہ الفاظ پڑھ رہا تھا جو ابو سفیان، معاویہ بن ابوسفیان رضوان اللہ علیہم اجمعین اور یزید بن معاویہ کے خلاف تھے۔
ان احتجاجی کلمات کو پڑھ کر میں ورطۂ حیرت میں ڈوب گیا۔ ان الفاظ نے میرے دل و دماغ پر ہتھوڑے کی طرح چوٹ کی۔ میں سخت پریشان ہو گیا کیونکہ میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ کوئی شخص ان ہستیوں پر لعنت کرے گا جنہیں امت کے بڑے طبقے نے صحابہ کے درجے میں شمار کیا ہے۔
یہ بات میرے ایمان، تربیت اور تاریخی فہم کے بالکل خلاف تھی۔ میرے لیے یہ الفاظ ناقابلِ یقین اور ناقابلِ قبول تھے۔ میں ششدر رہ گیا کہ کوئی اس حد تک بھی جا سکتا ہے۔کیونکہ اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ صحابہ کے مشاجرات میں خاموشی اختیار کی جائے اور فیصلہ خدا کی عدالت کے سپرد کر دیا جائے۔
دوسری طرف ، اہل تشیع کے ہاں ، تبرّا— محض لعن و طعن کا نام نہیں، یہ ایک احتجاج ہے، ایک پکار ہے، ایک اعلانِ برات ہے۔ ایک ایسی برہمی، جو صدیوں کے زخموں سے ٹپکتی ہے، جو تاریخ کے بہتے لہو میں تحلیل ہو چکی ہے۔ یہ ایک کیفیت ہے، ایک ایسا اظہار جس میں محبت کا عکس بھی ہے اور نفرت کی تپش بھی۔ یہ جہاں حسینیت کی صدا ہے، وہیں یزیدیت کی مذمت بھی۔
مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ ایران کے سفر سے پہلے میں چار برس سعودی عرب میں عربی اور دینی علوم پڑھ چکا تھا، اور اُس وقت عربی میرے لیے اجنبی نہ تھی۔ برہمی کے وہ کلمات میرے لیے کسی اور ہی دنیا کے دروازے کھول رہے تھے۔ لفظوں کا ایک سیلاب تھا جو اس غالیچے پر بہتا چلا جا رہا تھا۔ چار مرتبہ لعنت، پھر پانچویں لعنت، اور اس کے بعد—سجدہ۔
سجدہ؟
’اے خدا! تو عبید اللہ بن زیاد، ابنِ مرجانہ، عمر بن سعد، شمر، ابو سفیان کے خاندان، زیاد کے خاندان اور مروان کے خاندان پر قیامت تک لعنت بھیج!‘
یہ آخری لعنت تھی۔ ایک ایسا جملہ تھا جو وقت کی دیوار پر ہمیشہ کے لیے کندہ کر دیا گیا تھا، جیسے کسی صدیوں پرانی کتاب کا آخری باب، جو اب کبھی مٹ نہیں سکتا۔ بھلا لعن طعن کرنے کے بعد، بھی سجدہ کیا جاتا ہے۔
یہ کیسا سجدہ تھا؟ یہ کیسا منظر تھا؟
سجدہ تو احترام، محبت اور شکر کے جذبات کے ساتھ کیا جاتا ہے لیکن ان لوگوں کا، احتجاج اور صفِ ماتم کے بعد خدا کے حضور سجدے میں گر جانا—یہ میرے لیے ناقابلِ فہم تھا۔
ممکن ہے کہ ایک عام ایرانی نمازی کے دل میں، اس احتجاجی دعا کو پڑھتے وقت وہ نفرت انگیز جذبات نہ ابھرتے ہوں، جو میرے دل پر اثر انداز ہو رہے تھے۔ کیونکہ میں عربی زبان جانتا تھا، اس لیے مفہوم میرے سامنے پوری شدت سے واضح تھا۔
شاید عام نمازی اس دعا کو محض رسماً دہراتا ہو، بغیر کسی گہرے احساس کے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس دعا کا فارسی ترجمہ ہی وہ عنصر ہو، جو نفرت کی کیفیت کو جنم دیتا ہو۔
میں کچھ دیر وہیں کھڑا رہا۔ مسجد کے در و دیوار پر ایک عجیب خاموشی تھی، جیسے وہ بھی اس احتجاج کو سن رہے ہوں، جیسے وہ بھی ورطہ حیرت میں مبتلا ہوں۔(جاری ہے)
تبصرہ کریں