ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی نے حالیہ مہینوں میں ایک نیا موڑ لیا ہے۔ ایران کی جانب سے اسرائیل پر داغے گئے بیلسٹک اور کروز میزائلوں نے نہ صرف دنیا بھر میں خطرے کی گھنٹی بجا دی بلکہ اسرائیل کے جدید اور کثیر سطحی فضائی دفاعی نظام کو بھی چیلنج کر دیا۔ عسکری ماہرین اس بات پر حیران ہیں کہ آخر ایران نے وہ کون سی حکمتِ عملی اپنائی جس کی بدولت وہ دنیا کے بہترین فضائی دفاعی نظام کو بھی چکمہ دینے میں کامیاب رہا۔
اسرائیلی فضائی دفاعی نظام: ایک مختصر جائزہ
اسرائیل کا دفاعی نظام دنیا میں سب سے زیادہ پیچیدہ اور جدید تصور کیا جاتا ہے، جس میں مختلف سطحوں پر کام کرنے والے دفاعی نظام شامل ہیں:
- Iron Dome: قریبی فاصلے سے آنے والے راکٹ اور میزائل روکنے کے لیے
- David’s Sling: درمیانے فاصلے کے میزائلوں کے لیے
- Barak-8: فضا سے زمین پر مار کرنے والے خطرات سے نمٹنے کے لیے
- Arrow-2 اور Arrow-3: طویل فاصلے کے بیلسٹک میزائلوں کو روکنے کے لیے
یہ بھی پڑھیے
ایران اسرائیل جنگ میں امریکا کی براہ راست شمولیت کے نتائج کیا ہوں گے؟
سحر امامی، ایک دلیر ایرانی نیوز اینکر کا حیران کن قصہ
یہ تمام نظام مربوط ریڈار، کنٹرول مراکز، اور لانچر یونٹس کے ذریعے کام کرتے ہیں جو دشمن کے میزائل کو فضا میں ہی تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مگر پھر بھی ایرانی میزائل بعض اہم اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ آخر کیسے؟
ایران کی حکمت عملی: دفاع سے زیادہ دماغی کھیل
1. حملوں کی بھرمار (Over-saturation Attack)
ایران نے ایک ہی وقت میں سینکڑوں میزائل اور ڈرونز داغے، جن کی تعداد اسرائیلی دفاعی نظام کی برداشت سے زیادہ تھی۔ یہ حکمتِ عملی "اوور سیچوریشن” کہلاتی ہے، جس کا مقصد دفاعی نظام کو مغلوب کرنا ہوتا ہے۔ چونکہ ہر اسرائیلی انٹرسپٹر مہنگا اور محدود تعداد میں دستیاب ہوتا ہے، اس لیے اتنی بڑی تعداد میں حملوں نے نظام کو تھکا دیا۔
2. ہائپرسونک میزائلز کا استعمال
ایران نے ممکنہ طور پر Fattah-2 جیسے ہائپرسونک میزائل استعمال کیے، جو آواز سے پانچ گنا تیز رفتار سے پرواز کرتے ہیں۔ ان کی خاصیت یہ ہے کہ وہ مسلسل اپنا راستہ بدل سکتے ہیں، جس کی وجہ سے دفاعی نظام انہیں وقت پر ٹریک نہیں کر پاتا۔
3. کروز میزائلز کی کم بلندی پر پرواز
ایران کے کروز میزائل، جیسے Hoveyzeh، زمین کے قریب پرواز کرتے ہیں، اور ریڈار کے لیے انہیں پکڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ میزائل طیاروں کی مانند پرواز کرتے ہیں اور اکثر شہری علاقوں یا غیر متوقع راستوں سے ہو کر اپنے ہدف تک پہنچتے ہیں۔
4. جعلی اہداف اور Decoys کا استعمال
ایران نے ممکنہ طور پر جعلی میزائل اور ڈرونز بھی استعمال کیے تاکہ اسرائیلی دفاعی نظام انہیں حقیقی خطرہ سمجھے اور قیمتی انٹرسپٹرز ضائع کرے۔ یہ حکمتِ عملی دشمن کی توجہ بٹانے اور اس کے وسائل کو کم کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
5. الیکٹرانک وارفیئر اور جیمنگ
بعض ایرانی میزائل ریڈار جیمنگ یا سپریس کرنے والی ٹیکنالوجی سے لیس تھے، جو ریڈار کی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں۔ اس سے میزائلوں کی شناخت اور ان کا تعاقب مشکل ہو جاتا ہے، جس سے دفاعی نظام کی مؤثریت کم ہو جاتی ہے۔
جنگ کا نیا منظرنامہ: ذہانت، حکمت عملی اور صبر کا امتحان
تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کی یہ حکمتِ عملی صرف عسکری میدان میں برتری حاصل کرنے کی کوشش نہیں بلکہ اسرائیل جیسے طاقتور ملک کے اعتماد کو متزلزل کرنے کی ایک بڑی کوشش ہے۔ اسرائیلی دفاعی نظام کی ناکامی نے دنیا بھر کے عسکری اداروں کو یہ باور کرا دیا کہ:
"کوئی بھی دفاعی نظام 100٪ محفوظ نہیں ہوتا۔”
ایران نے کم لاگت اور ذہین جنگی حکمت عملی کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ جدید ٹیکنالوجی کو صرف اسی وقت شکست دی جا سکتی ہے جب حملہ کرنے والا نہ صرف تیز، بلکہ چالاک اور مستقل مزاج ہو۔
ایران اور اسرائیل کی یہ جنگ صرف ہتھیاروں کی نہیں، بلکہ ذہانت، صبر، اور حکمتِ عملی کی بھی جنگ ہے۔ ایران نے اسرائیلی دفاعی نظام کے خلاف جو حکمتِ عملی اپنائی، وہ جدید دور کی غیر روایتی جنگ کا ایک سبق ہے۔ یہ مظاہرہ کرتا ہے کہ چھوٹے یا نسبتا کمزور ممالک بھی اگر درست منصوبہ بندی اور تخلیقی حربوں سے کام لیں، تو بڑی طاقتوں کے جدید دفاعی نظاموں کو بھی زیر کیا جا سکتا ہے۔
جاوید اصغر کو جواب دیں جواب منسوخ کریں