اداکارہ عائشہ خان اور اداکارہ حمیرا اصغر

میں اکیلا ہی رہ گیا تھا

·

ایک روز  شام کی چائے  کے بعد ہم اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔  میری بیٹی آئمہ اور عزیزم  عبدالحئی  صحن میں کھیل رہے تھے۔ دونوں بار بار گیند کمرے کی طرف پھینکتے اور اپنی باری پر پکڑ کر لاتے ۔

عبدالحئی اپنی باری پر دوڑتا ہوا کمرے میں گیا تو اچانک بجلی چلی گئی۔ پورا گھر اندھیرے میں ڈوب گیا۔ وہ خوفزدہ ہو کر رونے لگا۔ اس کی والدہ نے اسے خوب دلاسہ دیا لیکن وہ قابو میں ہی نہیں آ رہا تھا۔ اس نے موبائل کی لائٹ جلائی، پل بھر میں ننھی سی روشنی نے اندھیرے  کو چیر کر رکھ دیا۔

 اندھیرا اور روشنی، دن اور رات، محبت اور نفرت ،سچ اور   ہے جھوٹ، سیاہ اور سفید ایک دوسرے کا توڑ بھی ہیں، متضاد بھی لیکن پھر بھی ان کا آپس میں گہرا تعلق بھی ہے۔ ایک جاتا ہے تو دوسرا آتا ہے۔ یہ  فطرت کا اصول ہے۔ اختلاف ہوتا ہے، ہو سکتا ہے اسے خاتمے کا سبب  نہیں  بنانا چاہیے۔ ہم معمولی اختلاف  کو  تعلق توڑنے کا سبب بنا لیتے ہیں۔ یہ تو ایک ضمنی بات ہے۔

 اندھیرا روشنی میں بدل گیا، بجلی بھی تھوڑی دیر بعد  آگئی لیکن ننھے عبدل کے دل و دماغ پر اس اچانک اندھیرے نے ایسی ضرب لگائی کہ وہ دیر تک سسکیاں بھرتا رہا۔ کئی راتیں سو  نہیں  پایا   اور کئی روز اس واقعے کی دہشت کو یاد کرتا رہا۔ وہ اپنی توتلی زبان میں ایک  ہی بات کرتا تھا ‘ اماں میں اکیلا ہی رہ گیا تھا’۔ اماں میں اکیلا ہی چلا گیا تھا۔

اس کا یہ جملہ آج تک دل پر چوٹ لگاتا ہے۔ اکیلا ایک کمرے میں بچے کا اندھیرے میں رہ جانا اسے کس قدر خوف زدہ کر دیتا ہے۔  اکیلا ہونا کس  قدر تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اکیلا انسان رہ ہی نہیں سکتا۔

 جب حضرت آدم  کو زمیں پر اتارا گیا تو ان  کی اداسی دور  کرنے کے لیے حضرت حوا کو زمین پر  اتارا گیا۔ مل جل کر رہنا انسانی جبلت  ہے۔ انسان اپنی ضرورتوں کے لیے ایک دوسرے کا محتاج ہے۔ یہی محتاجی انسان  کو انسان سے جوڑے رکھتی ہے۔ انسان اسی لیے معاشرتی حیوان کہلاتا ہے۔ انسان کو اپنے حقو ق  کے حصول کے بدلے فرائض کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ یہی قانون فطرت ہے اور اسی قانون پر عمل کر کے ترقی یافتہ اقوام کامیابی کی منازل طے کر رہی ہیں۔ جہاں انسان ایک دوسرے سے کٹ کر رہتے ہیں، غیر محفوظ ہو جاتے ہیں۔

اپنوں سے  جڑ کر رہنا تحفظ کی ضمانت ہے۔ اپنوں سے آزادی ہمیں غیروں کی غلامی پر مجبور کر دیتی ہے۔ اگر اپنا گھر اپنا نہ بنایا جاسکے تو  پورا شہر کیسے اپنا بن سکتا ہے۔

حمیرا  صغر  کی المناک موت عائشہ خان کی  وفات اکیلے جدوجہد کرنے کی ٹھان لینے والوں کے لیے ایک سبق ہے، ایک  محاورہ ہے۔ اپنا مارے گا تو چھاؤں میں پھینکے گا لیکن جہاں اپنا کوئی رہے ہی نہ؟

 جس مغربی جدت پسندی سے متاثر ہو کر ہم اپنے خاندانی نظام اور اقدار کو  مسترد کر رہے ہیں، وہ خود اپنی تنہائی  سے تنگ آ چکے ہیں۔ اس سے سے پہلے کہ انسان کی کہانی المناک انجام سے دو چار ہو، اسے اپنی اقدار کو سنبھال لینا چاہیے۔

ہماری نوجوان نسل ذہنی طور پر اکیلے پن اور تنہائی کا شکار ہے۔  اس کی حالت دیکھ  کر مجھے بار بار  عبدل  کے وہ جملے یاد آتے ہیں:

اماں میں اکیلا ہی چلا گیا تھا، اماں میں اکیلا ہی رہ گیا تھا۔ اکیلا بچہ اپنے اکیلے پن کو اپنے ماں باپ ہی تک محدود رکھے ورنہ اس کا اکیلا پن اس کی تنہائی کا کوئی غیر ساتھی بھی بن سکتا ہے جو اس کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے