اداکارہ حمیرا اصغر اداکارہ عائشہ خان اور سیمیں درانی

تین لاشیں اور ایک لاوارث سوال

·

مثال ہے پنجابی کی: ’اولاد کلاد ہو جاندی اے، ماپے کماپے نئیں ہوندے‘ یعنی اولاد بے وفا ہو سکتی ہے، لیکن ماں باپ کبھی ماں باپ ہونا نہیں چھوڑتے۔

یہ والدین کی محبت کے لیے ایک محاورہ ہے،

وہ محبت جو بے غرض، بے لوث اور غیر مشروط سمجھی جاتی ہے۔

لیکن پھر ایک لاش ملتی ہے…

کئی ماہ پرانی لاش ۔۔

جس نے اس محاورے کو جھوٹا کردیا ہے۔

یہ لاش صرف اداکارہ حمیرا اصغر علی کی نہیں ہے… یہ انسانیت کی گلی سڑی لاش ہے۔

یہ واقعہ محض موت نہیں، ایک ایسا طمانچہ ہے جو سماج کے چہرے پر پوری قوت سے پڑتا ہے۔

اداکارہ، ماڈل، اور سوشل ورکر حمیرا اصغر — جو لاکھوں فالوورز رکھتی تھیں۔۔۔

ماڈل تھی، اداکارہ تھی۔

جو تنہائی میں اس طرح مری کہ اس کے ماں باپ نے بھی لاش لینے سے انکار کر دیا۔

پولیس نے فون کیا۔ بھائی نے کہا کہ والد سے بات کریں۔ والد نے غصے سے کہا: ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

جو کرنا ہے کریں۔ ہم لاش نہیں لیں گے۔ اور فون بند ہو گیا۔

یہ صرف ایک بیٹی کی لاش نہیں تھی،

یہ اس رشتے کے تقدس کا جنازہ تھا جسے ہم مقدس مانتے ہیں۔

کیا رشتے اب بدنامی کے خوف، خودغرضی، یا مفاد پرستی کے ترازوں میں تولے جاتے ہیں؟

وہ لڑکی جس کے ہزاروں چاہنے والے تھے، وہ سوشل میڈیا پر موجود تھی، اس کی مسکراہٹوں میں زندگیاں جھلکتی تھیں — آخر تنہائی میں کیوں مری؟ کیوں کوئی اس کی غیر موجودگی محسوس نہ کر سکا؟

ایسی موت تنہائی کی نہیں، ہمارے ضمیر کی موت ہے۔

یاد کریں سیمیں درانی — ایک بھولی ہوئی کہانی۔۔۔

وہ حسین تھی…بہت حسین۔ روشن آنکھیں، زندہ دل، ہنسنے ہنسانے والی، سوال اٹھانے والی۔

بہادر اور زندہ دل تھی ۔۔

فیس بک کے کئی لوگ اس کے اچھے دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔۔

لیکن دنیا اسے سمجھ نہ سکی۔ کچھ نے اس کی ہنسی کو آزادی کہا،

کچھ نے اس کی تحریروں کو بے باکی کہا۔

مگر وہ جن کی اسے سب سے زیادہ ضرورت تھی، وہ خاموشی سے کنارہ کش ہو گئے۔۔۔

ایسی عورت اگر خود کو فنا کر لے، تو یہ واقعہ نہیں، واردات ہے۔۔۔

اس کی پنکھے سے لٹکی پانچ دن پرانی لاش کو خودکشی کہنا کافی نہیں۔

اگر یہ خودکشی ہے تو سمجھنا چاہیے کہ انسانیت بھی اس کے ساتھ خودکشی کرچکی ۔۔۔ کہاں تھے اس کے وہ اپنے، جو اس کی غیر موجودگی سے بھی لاتعلق رہے؟

وہ دل کی مریضہ تھی، لیکن رشتے — جنہیں خون کہا جاتا ہے — اس کے دل کو نہ سمجھ سکے۔۔۔۔

سیمیں کی موت صرف اس کی اپنی نہیں، یہ ہمارے معاشرے کی بے حسی کی فردِ جرم ہے۔

عائشہ خان —سینئر ادکارہ ۔۔

ستر سالہ بزرگ خاتون۔

وہ چہرہ جو برسوں اسکرین پر جگمگاتا رہا —

دلوں کو چھوتا، کہانیوں کو جان بخشتا رہا۔

عائشہ خان… صرف ایک اچھی اداکارہ نہیں، بلکہ با اخلاق، مہذب اور شائستہ لب و لہجے والی شخصیت تھیں۔

ان کے پڑھے لکھے، سیٹ ہنستے بنستے بچے اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ ایک ذمہ دار ماں بھی تھیں۔ ۔۔

لیکن جب اولاد اپنی زندگی میں مصروف ہوئی تو ماں کو ہی بھول گئی۔

وہ کرداروں میں جیتی رہیں، مگر شاید اپنی ذات میں مرتی رہیں۔

جب دم توڑ گئیں تو کئی دن کسی کو خبر نہ ہوئی۔۔۔۔۔

اور جب خبر آئی، تو تنہائی کی بو ساتھ لائی —

جو برسوں سے ان کے ارد گرد تھی۔

عائشہ خان کی موت صرف ایک سینئر اداکارہ کی موت نہیں تھی — یہ فنکاروں کے لیے سماج کی بے رخی پر دنیا کی سٹیج پر ان کا آخری سین تھا۔

اب پھر ایک اور کئی ماہ پرانی لاش ملی ہے ۔۔۔

اب سب کہانیوں ، ان کی زندگیوں اور ان کی لاشوں میں ایک بات مشترک ہے ۔۔اپنوں کی بے رخی اور تنہائی کی بو ۔۔۔

تین لاشیں، تین کہانیاں ہیں اور یہ لاشیں سماج سے ایک لاوارث سوال کرتی ہیں ۔۔

کیا تم سب زندہ ہو یا چلتی پھرتی لاشیں؟

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے