یہ کہانی ہے ای۔ جین کیرول کی، جو ایک مشہور امریکی صحافی تھیں، لاکھوں قارئین ان کے کالم ‘Ask E. Jean‘ کو پڑھتے تھے۔ ان کے پاس قارئین کی خوشیوں، دکھوں، رشتوں اور بکھرتے خوابوں کے سوال آتے، اور وہ ان کے لیے روشنی بن جاتیں۔ مگر کیرول خود ایک ایسا بوجھ اٹھا رہی تھیں، جو انہوں نے دہائیوں تک اپنے دل میں دفن رکھا — ایک ایسا واقعہ، جس نے ان کی روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
واقعہ: ایک لگژری اسٹور کی خاموشی
یہ 1996 کی بات ہے۔ ای۔ جین کہتی ہیں کہ ایک روز وہ نیویارک کے مشہور لگژری اسٹور Bergdorf Goodman گئی تھیں۔ اتفاقاً وہاں ان کی ملاقات ڈونلڈ ٹرمپ سے ہوئی، جو اس وقت ایک ارب پتی کاروباری شخصیت اور نیویارک کی مشہور شخصیت تھے۔
کیرول کے مطابق، ٹرمپ نے ہنستے ہنستے کہا کہ وہ کسی خاتون دوست کے لیے انڈروئیر خریدنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد دونوں مذاقاً لنجری سیکشن کی طرف گئے، جہاں باتوں باتوں میں ٹرمپ نے انہیں ’ٹرائل روم‘ میں چلنے کو کہا۔ کیرول کے مطابق، جیسے ہی وہ دونوں اندر گئے، ٹرمپ نے دروازہ بند کیا، اور چند لمحوں کے بعد ہی اس نے اسے دیوار سے دھکیل کر، زبردستی چومنا شروع کیا۔ کیرول کا دعویٰ ہے کہ ٹرمپ نے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔
خاموشی کی قیمت
ڈونلڈ ٹرمپ کی جنسی زیادتی سے متعلق کیرول نے کسی کو کچھ نہ بتایا۔ نہ پولیس، نہ دوستوں کو۔ ان کے مطابق، وہ ڈری ہوئی تھیں، شرمندہ تھیں، اور سمجھتی تھیں کہ کوئی ان کی بات پر یقین نہیں کرے گا۔ ٹرمپ ایک طاقتور آدمی تھے، اور وہ ایک اکیلی عورت۔
یہ بھی پڑھیے
ٹرمپ دفتر میں سارا دن کیسی حرکتیں کرتے رہتے ہیں، انوکھے انکشافات
مغرب میں عورت کی آزادی کے باوجود جنسی جرائم کیوں بڑھ رہے ہیں؟
ورلڈ اکنامک فورم: عالمی اشرافیہ نے کس قسم کی حرکتوں میں لاکھوں ڈالر اڑائے؟ ایک سیکس ورکر کے انکشافات
انھوں نے یہ راز تقریباً 23 سال تک اپنے اندر دفن رکھا۔
انکشاف کا لمحہ: 2019
پھر جون 2019 میں، ای۔ جین کیرول نے اپنی کتاب What Do We Need Men For? لکھی — اور اس میں پہلی بار اس واقعے کا تفصیلاً انکشاف کیا۔
کتاب کی اشاعت سے پہلے ہی New York Magazine میں ان کا ایک اقتباس شائع ہوا، جس میں انھوں نے بغیر کسی پردہ پوشی کے کہا:
’ڈونلڈ ٹرمپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘
ٹرمپ کا مؤقف
ٹرمپ نے اس الزام کو فوری طور پر سراسر جھوٹ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا ’میں نے اسے کبھی دیکھا بھی نہیں۔ وہ میرے ٹائپ کی نہیں ہے۔ یہ الزام میری ساکھ کو خراب کرنے کے لیے ایک سیاسی سازش ہے۔‘
ٹرمپ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ سب اس کی کتاب کی فروخت بڑھانے کے لیے کیا گیا ڈرامہ ہے۔
کیرول کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے یہ الفاظ ایک اور زخم بنے۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد، اب وہ مجھے جھوٹا بھی کہہ رہا ہے۔
پہلا مقدمہ: ہتکِ عزت (2019)
کیرول نے ٹرمپ کے خلاف defamation یعنی ہتکِ عزت کا مقدمہ دائر کیا۔ ان کا کہنا تھا:
’اس نے مجھے جھوٹا کہا، اور میری شہرت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ میں اب سڑک پر چلوں تو لوگ انگلیاں اٹھاتے ہیں۔‘
یہ مقدمہ برسوں عدالت میں گھومتا رہا۔
دوسرا مقدمہ: جنسی زیادتی اور ہتک عزت (2022)
2022 میں نیویارک میں ایک قانون منظور ہوا — Adult Survivors Act — جس کے تحت ایسے افراد جنہوں نے ماضی میں جنسی حملے کا سامنا کیا، وہ ایک محدود مدت کے لیے مقدمہ کر سکتے ہیں، چاہے واقعہ پرانے وقت کا ہو۔
کیرول نے فوراً فائدہ اٹھایا اور ٹرمپ کے خلاف جنسی زیادتی اور ہتک عزت کا نیا مقدمہ دائر کیا۔
عدالت میں ٹکراؤ (2023)
یہ وہ لمحہ تھا جب پوری دنیا کی نظریں اس کیس پر جم گئیں۔
کیرول نے عدالت میں گواہی دی: ’میں اس دن کے بعد کبھی ایک جیسے نہیں سوئی۔‘
ٹرمپ عدالت میں پیش نہیں ہوا، لیکن اس کی پرانی ویڈیوز، بیانات اور Access Hollywood tape کو شواہد کے طور پر پیش کیا گیا۔
Access Hollywood tape میں ٹرمپ نے 2005 میں فخریہ انداز میں کہا تھا:
’جب تم سلیبریٹی ہو، وہ تمہیں کچھ بھی کرنے دیتے ہیں… انہیں پکڑ لو… کچھ بھی۔‘
عدالت کا پہلا فیصلہ (مئی 2023)
جیوری نے متفقہ طور پر فیصلہ دیا:
ٹرمپ نے کیرول کے ساتھ جنسی زیادتی کی (لیکن قانونی تعریف کے مطابق ریپ نہیں کہا گیا)۔
اس نے کیرول کو جھوٹا کہہ کر ہتکِ عزت کی۔
عدالت نے ٹرمپ کو $5 ملین ڈالر کا ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی…
فیصلے کے بعد ٹرمپ نے ایک بار پھر ٹی وی پر بیٹھ کر کیرول کو جھوٹا کہا۔ اس بار CNN پر لائیو، ہنستے ہوئے کہا:
’یہ ایک مزاحیہ مقدمہ تھا۔ وہ تو ایک فراڈی ہے۔‘
کیرول نے اسی لمحے دوسرا مقدمہ کر دیا — ایک اور ہتک عزت کا۔
دوسرا فیصلہ (جنوری 2024)
جیوری نے اس بار $83.3 ملین ڈالر ہرجانے کا حکم دیا۔
$65 ملین تعزیری (punitive damages)
$18.3 ملین دیگر نقصانات کی مد میں
یہ رقم امریکا میں کسی خاتون کو ہتک عزت پر دی گئی سب سے بڑی رقموں میں شامل ہے۔
سیاست پر اثرات
یہ مقدمہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب ٹرمپ 2024 کے امریکی صدارتی انتخابات کی تیاری کر رہے تھے۔ اس کیس نے ان کی ساکھ کو جھٹکا دیا، مگر ان کے حمایتی اب بھی اسے ’سیاسی شکار‘ کہتے ہیں۔
ای۔ جین کیرول کی آخری بات
ایک انٹرویو میں کیرول نے کہا:
’میں نے صرف ایک سچ بولا۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ میرے لیے آسان نہیں ہوگا، مگر میں یہ سچ بولنے کے لیے زندہ رہی ہوں۔‘
یہ کہانی صرف ای۔ جین کیرول اور ڈونلڈ ٹرمپ کی نہیں، بلکہ لاکھوں ایسی عورتوں کی بھی ہے جو سالوں خاموش رہتی ہیں، کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ اگر زبان کھولی، تو طاقتور لوگ ان کی آواز دبا دیں گے۔
مگر جب وہ بولتی ہیں — تو تاریخ بنتی ہے۔
تبصرہ کریں