دنیا بھر میں وٹامن اور منرل سپلیمنٹس کی مارکیٹ اربوں ڈالر کی صنعت بن چکی ہے۔ صرف امریکہ میں 74 فیصد لوگ اور برطانیہ میں دو تہائی افراد اپنی روزمرہ خوراک میں کمی پوری کرنے کے لیے یہ گولیاں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ گولیاں واقعی فائدہ مند ہوتی ہیں یا پھر یہ محض ایک نفسیاتی سہارا ہیں؟
وٹامنز اور منرلز کیوں ضروری ہیں؟
وٹامن اور منرلز ایسے مرکبات ہیں جو ہمارا جسم خود نہیں بنا سکتا، لیکن صحت مند رہنے کے لیے ان کا ہونا لازمی ہے۔ مثلاً:
وٹامن اے: آنکھوں اور جلد کی صحت کے لیے۔
وٹامن سی: مدافعتی نظام کے لیے۔
وٹامن کے: خون کے جمنے کے عمل کے لیے۔
کیلشیم اور میگنیشیم: ہڈیوں اور اعصاب کے لیے۔
یہ اجزاء ہم بنیادی طور پر متوازن خوراک—سبز پتوں والی سبزیاں، پھل، مچھلی، اناج، دودھ اور گری دار میوے سے حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن آج کی مصروف زندگی اور فاسٹ فوڈ کے رجحان نے ہماری خوراک کو نامکمل بنا دیا ہے۔
کیا ملٹی وٹامنز کمی پوری کرتے ہیں؟
70 کی دہائی میں نوبیل انعام یافتہ سائنس دان لائنس پالِنگ نے دعویٰ کیا کہ زیادہ مقدار میں وٹامن سی سردی زکام سے لے کر کینسر تک سب کچھ ٹھیک کر سکتا ہے۔ یہ تصور مقبول ہوا، لیکن بعد کی تحقیق نے ثابت کیا کہ یہ دعویٰ درست نہیں تھا۔
آج انسٹاگرام اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز پر انفلوئنسرز ایسے سپلیمنٹس بیچ رہے ہیں جن میں روزانہ کی ضرورت سے 500 سے 1000 فیصد زیادہ وٹامنز شامل ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ مقدار ہمیشہ بہتر نہیں ہوتی۔
’میگا ڈوزنگ‘ کے خطرات
بہت زیادہ وٹامن ڈی جھٹکوں، کوما یا موت تک کا باعث بن سکتا ہے۔
وٹامن اے کی زیادتی سر درد، نظر کی دھندلاہٹ، پٹھوں کا درد اور بعض اوقات کوما تک لے جا سکتی ہے۔
زیادہ مقدار میں اینٹی آکسیڈنٹس (جیسے وٹامن ای یا بیٹا کیروٹین) لینے سے کینسر یا فالج کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، خاص طور پر سگریٹ نوش افراد میں۔
ہارورڈ کی پروفیسر جو این مانسن کہتی ہیں:
’وٹامن ای خون کو پتلا کرتا ہے۔ اس کی زیادہ مقدار دماغی فالج (Brain Hemorrhage) کے خطرے میں اضافہ کرتی ہے۔‘
وٹامن ڈی کا کیس
وٹامن ڈی نسبتاً مختلف ہے۔ سورج کی روشنی سے ہمارا جسم اسے بنا سکتا ہے، لیکن سردیوں میں اس کی کمی عام ہے۔ اسی لیے برطانیہ میں سفارش کی جاتی ہے کہ اکتوبر سے مارچ تک ہر شخص وٹامن ڈی سپلیمنٹ لے۔
Vital Trial نامی ایک بڑے امریکی مطالعے میں یہ سامنے آیا کہ:
وٹامن ڈی لینے والوں میں کینسر سے اموات 17 فیصد کم ہوئیں۔
دو سال سے زیادہ استعمال کرنے والوں میں یہ شرح 25 فیصد تک کم ہو گئی۔
یہ آٹو امیون بیماریوں (جیسے گٹھیا اور سوریاسس) میں بھی مددگار ثابت ہوا۔
لیکن ہڈیوں کے فریکچر روکنے میں اس کے نتائج ملے جلے ہیں۔
ملٹی وٹامنز اور بڑھاپا
تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بوڑھے افراد کو ملٹی وٹامن زیادہ فائدہ دیتے ہیں کیونکہ ان کی خوراک اکثر نامکمل ہوتی ہے یا ان کا جسم غذائی اجزاء کو اچھی طرح جذب نہیں کر پاتا۔
ایک مطالعے کے مطابق 70 سال سے زائد عمر کے افراد میں ملٹی وٹامن لینے والوں کا کینسر کا خطرہ 18 فیصد کم ہوا۔
2023 کی Cosmos Trial کے مطابق ملٹی وٹامن لینے والوں میں یادداشت کی کمی کی رفتار 60 فیصد کم رہی۔
کن لوگوں کو سپلیمنٹس کی ضرورت ہو سکتی ہے؟
حاملہ خواتین (خاص طور پر فولک ایسڈ)
بزرگ افراد (خاص طور پر 60 سال سے اوپر)
نرسنگ ہوم کے رہائشی (کیلشیم + وٹامن ڈی)
سبزی خور یا مچھلی نہ کھانے والے افراد (اومیگا تھری)
وہ مریض جنہیں وٹامن جذب کرنے میں مشکل ہوتی ہے (مثلاً کرونز ڈیزیز یا ذیابیطس کے لیے میٹفارمین استعمال کرنے والے)
ماہرین کا آخری مشورہ
وٹامنز ضروری ہیں، لیکن زیادہ مقدار نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
ایک متوازن خوراک ہمیشہ پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔
ملٹی وٹامن صرف ان لوگوں کے لیے ’انشورنس پالیسی‘ کی طرح ہیں جو اپنی خوراک کے بارے میں مطمئن نہیں ہیں۔
جیسا کہ پروفیسر مانسن کہتی ہیں:
’زیادہ ہمیشہ بہتر نہیں ہوتا۔ لیکن ایک سادہ ملٹی وٹامن نقصان دہ بھی نہیں ہے۔‘
وٹامن سپلیمنٹس کسی جادوئی علاج کا نام نہیں، بلکہ مخصوص حالات میں ایک سہارا ہیں۔ اگر خوراک متوازن ہے تو شاید ان کی ضرورت نہ ہو۔ لیکن اگر آپ حاملہ ہیں، عمر رسیدہ ہیں یا خوراک میں کمی ہے تو سپلیمنٹس ایک مددگار ’بیک اَپ‘ ثابت ہو سکتے ہیں۔
تبصرہ کریں