اردو ادب کی دنیا میں خواتین ادیباؤں کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ انہی روشن ناموں میں ایک معتبر اور ہمہ جہت نام ڈاکٹر بشریٰ تسنیم کا ہے، جو اپنی متنوع تحریروں اور اصلاحی اندازِ فکر کے باعث قاری کے دل میں جگہ بنا چکی ہیں۔ ان کی تحریروں میں ایک طرف ذاتی مشاہدات اور تجربات کی جھلک نظر آتی ہے تو دوسری جانب معاشرتی اصلاح کا جذبہ بھی نمایاں ہوتا ہے۔
ابتدائی زندگی اور ادبی شوق
ڈاکٹر بشریٰ تسنیم کو بچپن ہی سے علم دوست ماحول میسر آیا۔ ان کی نانی کہانی سنانے کا شوق رکھتی تھیں اور بچپن میں ان کی سنائی ہوئی کہانیوں نے ننھی بشریٰ تسنیم کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالا۔ یہی وجہ تھی کہ صرف نو سال کی عمر میں انہوں نے اپنی پہلی کہانی تحریر کی جو بچوں کے رسالے میں شائع ہوئی۔
والدہ نے بھی ان کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے بچپن ہی میں بیٹی کو ناخواندہ خواتین کے لیے خط لکھنے کی ذمہ داری دی، جس کے ذریعے انہیں الفاظ کے انتخاب، جملوں کی ساخت اور تحریر کے اثرات کا عملی شعور حاصل ہوا۔ اس تربیت نے آگے چل کر انہیں ایک پختہ قلمکار بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
ادبی خدمات
ڈاکٹر بشریٰ تسنیم کی اب تک تقریباً ایک درجن کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان میں شامل ہیں:
بچوں کی کہانیوں کے مجموعے
افسانوی مجموعے
کالموں کے مجموعے
بچوں کی تربیت سے متعلق کتب
دینی کتب
ان کی تحریریں مقصدیت سے بھرپور ہیں اور قارئین کو نہ صرف تفریح فراہم کرتی ہیں بلکہ سوچنے اور اپنے رویوں کو درست کرنے پر بھی مجبور کرتی ہیں۔
تنظیمی وابستگی اور ادارت
ڈاکٹر بشریٰ تسنیم کا تعلق خواتین ادیبوں کی معروف تنظیم حریم ادب سے رہا ہے۔ وہ کئی سال تک اس تنظیم کے ساتھ متحرک طور پر وابستہ رہیں۔ مزید برآں، وہ سالانہ مجلہ ’حریم‘ کی 1999 میں مدیرہ بھی اور چھ سال تنظیم حریم ادب کی سیکرٹری جنرل رہیں۔ انہوں نے نہ صرف خواتین لکھاریوں کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے بلکہ ادب میں اصلاحی اور اخلاقی رجحانات کو فروغ دیا۔
ڈاکٹر صاحبہ کے برطانیہ میں ریڈیو ایف ایم 5۔93 سے دینی لیکچر اور دیگر اصلاحی پروگرام نشر ہوتے رہے ہیں۔
سفرنامہ نگاری
ڈاکٹر بشریٰ تسنیم نے دنیا کے کئی ممالک کا سفر کیا، جن میں سعودی عرب، شارجہ، یورپ اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ ان کے سفرنامے محض مشاہدات کا بیان نہیں بلکہ ایک باشعور اور حساس قلمکار کے زاویۂ نظر کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ مناظر، تہذیب و ثقافت اور انسانی رویوں کو اس طرح بیان کرتی ہیں کہ قاری خود کو سفر کا شریک محسوس کرتا ہے۔
اندازِ تحریر اور فکری خصوصیات
ان کے اندازِ تحریر کی چند نمایاں خصوصیات یہ ہیں:
سادگی اور روانی: ان کی زبان عام فہم اور سادہ ہے جس میں تصنع یا بناوٹ کا کوئی شائبہ نہیں۔
اصلاحی رجحان: ان کی ہر تحریر میں معاشرتی اصلاح اور مثبت سوچ کی جھلک ملتی ہے۔
مشاہداتی گہرائی: سفرنامے اور افسانے دونوں میں ان کے مشاہدات کی باریک بینی نمایاں ہے۔
اثر انگیزی: وہ نصیحت کرنے کے بجائے قاری کو اپنے اسلوب کے ذریعے سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔
ذیل میں ’میری کتاب بیتی‘ کے عنوان سے ڈاکٹر بشریٰ تسنیم سے کیا جانے والا ایک مکالمہ ہے۔ اس میں وہ کیا کچھ بیان کرتی ہیں، پڑھنے کے لائق ہے۔ امید ہے کہ آپ کو خوب پسند آئے گا۔(ادارہ)
سوال: کتاب کے حوالے سے آپ کی یادداشت میں پہلا احساس کیا ہے؟
ڈاکٹر بشریٰ تسنیم: انیس سو سینتالیں میں میرے آباؤ اجداد رسول ﷺ کے نقش قدم پہ چلتےہوئے ایک نوزائیدہ اسلامی ریاست پاکستان کی طرف ہجرت کی صعوبتیں برداشت کرکے پہنچے تھے۔ اور دگرگوں معاشی حالات میں اپنے پاؤں پہ کھڑے ہونے کی سعی وجہد کر رہے تھے۔
پاکستان کے قیام کے پہلے عشرہ کا اختتام تھا جب میری پیدائش ہوئی۔ میں اپنے والدین کی دوسری اولاد تھی۔ مجھ سے بڑے میرے بھائی تھے۔ ننھیال اور ددھیال کی آپس میں قریبی رشتہ داری تھی اور سب ایک ہی علاقے جہانیاں منڈی (جو جنوبی پنجاب کی مشہور غلہ منڈی تھی) میں رہائش پذیر ہوئے۔ ایک بڑے قافلے کی صورت میں مشرقی پنجاب سے سفر ہجرت کی مصیبت نے، زندگی کی اکھاڑ پچھاڑ اور پے در پے ہر عمر کے پیاروں کی موت نے سب کو مزید قربت کی لڑی میں پرو رکھا تھا۔ اسی تناظر میں میری ابتدائی زندگی نے اقرباء کے درمیان جو تعلق دیکھا اس میں محبت، شفقت، عزت، احترام اور ایک دوسرے سے ہمدردی و پاسداری کا سچا رچاؤ بدرجہ اتم موجود تھا۔ جس کی چاشنی اب بھی رگ و پے میں محسوس ہوتی ہے۔
ہوش سنبھالنے پہ کچھ خواب جیسے مناظر میرے ذہن میں ایسے محفوظ تھے جن کو سن کر میرے بزرگ حیران ہوتے کہ اتنی چھوٹی عمر میں اسے کس طرح وہ مناظر یاد ہیں؟
ایک منظر میرے حافظے میں نقش ہے کہ مجھے کسی نے گود میں اٹھایا ہوا ہے۔ اور اباجان اور میرے بڑے ماموں کچھ کتابوں کو کپڑے میں باندھ کر کمرے میں انہیں چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور آہستہ آواز میں ایک دوسرے سے باتیں کر رہے ہیں۔
کتاب کے حوالے سے میری یادداشت کا یہ پہلا احساس تھا۔ مجھے کسی بات کا کوئی لفظ تک حافظے میں نہیں کیونکہ شاید اس وقت اظہار بیان کی بھی قابلیت ناپید ہوگی۔۔۔ وہ کمرہ، اباجان اور ماموں جان کے لباس بھی یاد تھے۔ ہوش سنبھالنے پہ میں اپنے ارد گرد ہر رشتہ دار مرد اور عورت میں کتابوں سے عشق کا جذبہ دیکھتی تو وہ یاد داشت بے چین کرتی کہ کتابیں کیوں چھپا رہے تھے؟ جب اپنی اماں جی (نانی جان) سے میں نے پہلی بار دریافت کیا ’یہ میں نے خواب دیکھا تھا یا سچ میں ایسا ہوا تھا؟‘ تو وہ میرے سر پہ ہلکی سے چپت مار کر بولیں،’کچھ خواب سچے ہوتے ہیں‘۔
ماموں جان کا خیال تھا کہ اپنے بڑوں سے پرانے واقعات بچوں کے کانوں میں پڑتے رہتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ وہ خود بھی وہاں موجود تھے۔ ہو سکتا ہے یہی بات ہو مگر میری یاد داشت میں ساری جزئیات سمیت بہت سے ایسے مناظر محفوظ تھے جیسے کسی گونگی فلم کے ہوں جس کی صرف تصویریں حرکت کرتی ہیں بغیر آواز کے۔۔۔ کسی سے سوال کرتی تو کوئی یقین نہیں کرتا تھا کہ بچی کو سب کیسے یاد رہ سکتا ہے؟
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ہیولے حقیقیت بنتے گئے۔ جب معلوم ہوا کہ وہ اس وقت جماعت اسلامی پہ بہت کڑا وقت تھا ۔ کتابوں رسالوں پہ پابندی، جماعت اسلامی کے راہنماؤں کی گرفتاریاں وغیرہ اسی دورِ پرفتن کی کہانیاں تھیں۔ دینِ اسلام سے سچا لگاؤ اور جماعت اسلامی سے قلبی تعلق ہمیں تحریک کے تاسیسی اجلاس کے وقت سے ورثے میں ملا ہے اور دونوں سے مقاربت میں تازگی اور حسن کے لئے مطالعہ ناگزیر ہے۔
ننھیال اور ددھیال کا شوقِ مطالعہ اور کتابوں سے رغبت قابلِ تحسین تھی۔ میری تربیت و تعلیم میں اماں جی کا بہت عمل دخل رہا۔ یقیناً فطرتاً اور پھر وراثتاً مجھے ذوقِ مطالعہ نصیب ہوا اور اماں جی نے اس ذوق کو جلاء بخشی۔
گھر میں مردوں کو اپنی معاشی مصروفیت سے فراغت ملتی تو ان کے ارد گرد رسائل و جرائد یا کتابیں پائی جاتیں۔ خواتین کو جب فرصت ملتی ان کے ہاتھ میں کوئی کتاب ہوتی۔ ہم اپنے بچپن میں کھلونوں سے واقف نہ تھے کتابیں رسالے ہی ہماری تفریح کا ذریعہ تھے۔ ہر عمر کے افراد اور صنف کے لئے ماہانہ رسائل باقاعدہ آتے۔ کھیل میں تعلیمی کارڈز اور بیت بازی پسندیدہ کھیل تھا۔ ہندوستان رام پور سے پندرہ روزہ ’نور‘ اور ’الحسنات‘ ہمارے گھروں میں آتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد جو بھی تحریکی کے علاوہ معیاری رسالے جاری ہوئے ان کا پہلا شمارہ ہمارے گھروں میں موجود ہوتا اور جب تک رسالے جاری رہے اس میں تعطل نہ آیا اور جو رسائل آج بھی قائم ہیں وہ باقاعدگی سے آرہے ہیں۔
میرے والد اور میرے ماموں نے اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ ہجرت سے پہلے ایک قلمی رسالہ ’احسن‘ جاری کیا، جس کے سارے کام وہ سب نوجوان مل کر کرتے تھے۔ اس کا نام بھی میرے والد(عبدالغنی احسن )کے ہی نام کا حصہ تھا۔ والد محترم کو کسی نئی شائع شدہ کتاب کا پتہ چلتا تو اسے خریدنا فرضِ اولین سمجھا جاتا۔
مجھے ہجرت کے واقعات اور تاریخی کہانیاں سننے کا اور اماں جی کو سنانے کا بہت شوق تھا۔ اس لیے نانی اور نواسی کی جوڑی خوب جچ گئی تھی۔(جاری ہے)
تبصرہ کریں