اسرائیل کے خلاف مظاہرہ

بجلی کڑ کڑ کڑکے گی

·

کسی اونچے مقام پہ کھڑے ہو کے انسانی آبادیوں پر نظر دوڑاؤ، تاحدِ نگاہ بڑی بڑی عمارتیں دکھائی دیں گی۔ لائبریریاں، درس گاہیں، عدالتیں، فوجی چھاؤنیاں، حقوق کی تشکیل و تدریس کے ادارے۔۔۔۔ ہر مہینے کھربوں کے بجٹ پاس ہوتے ہیں تب کہیں جا کر ان عمارتوں کی غایت پوری ہوتی ہے۔

 بات کی جائے دفاعی ساز و سامان کی تو ٹینک، میزائل، طیارے، آبدوزیں۔۔۔۔کیا کچھ ہے جو نہیں بنایا جا چکا لیکن اسی زمین پہ دندناتے کچھ بدمعاش ایسے ہیں جو کسی کے قابو ہی نہیں آرہے ہیں۔ وہ ہزاروں انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں لیکن ان کے لیے کوئی توپ، کوئی گولہ، کوئی میزائل حرکت میں نہیں آتا۔

جی ہاں! زمیں کا ایک ٹکڑا ایسا بھی ہے جہاں صحافی تک محفوظ نہیں ہیں۔ پچھلے دو سالوں کے دوران سینکڑوں صحافی ایک بدمعاش قوت کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے۔ تازہ مثال انس جمال الشریف کی ہے۔ 

 وہ جواں سال ہر دلعزیز صحافی جو ایک پیاری سی گڑیا اور ننھے پھول جیسے بیٹے کا باپ بھی تھا، انسانی حقوق کی دہائی دیتا تھا۔ ترقی یافتہ، خوشحال اور تعلیم یافتہ دنیا کے ضمیر پہ دستک دیتا تھا۔۔

 شرق تا غرب گہری نیند میں سوئی امت کو ندا اس نے دی۔

 امت کے بے حس اور غدار حکمرانوں کو اپنے فنِ صحافت سے وفا اور احساس کا پیغام دینے والا انس جمال الشریف۔

اس کے کیمرے اور مائیک کے علاوہ کل اثاثہِ جان عزیز تھی جسے ہتھیلی پہ لیے لیے پھرا وہ۔ جان دے دی مگر اپنے کام سے ذرہ برابر خیانت نہیں کی(شہادت 10 اگست 2025 )۔

 ہاں! اس سے جینے کا حق چھین لیا اس بدمعاش نے جو 78 سال سے عالمی ڈاکوؤں کی مدد کے ساتھ فلسطین کے چھوٹے سے علاقے پر قابض ہو بیٹھا ہے۔ 78 سال سے وہاں انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ اسے سہارا دینے والے بھی اس قانون کو مانتے ہیں کہ صحافیوں کا قتل بڑا جنگی جرم ہے۔ اس کے باوجود اس بدمعاش کی پشت پناہی کیے جا رہے ہیں۔ تو پھر  یہ بڑے بڑے ادارے اور—- یہ حقوق کے نعرے اور—- دعوے کس کام کے؟؟ یہ بڑے ملکوں کی عظمت پہ لکھے گئے ہزاروں فسانے کس لیے ؟؟

آگ لگا دو ان کاغذی حقائق کو—-

یہ خوشحالی کی ‘ضامن’ فلک بوس عمارتیں زمیں بوس نہیں ہو جانی چاہیے کیا؟؟

کون جانے۔۔۔۔ اب یا کب۔۔۔۔

‘ ترقی ‘ کا عنوان یہ اونچے مینار روئی کی طرح اڑ جائیں

ہاں اب تم اونچے مقام سے نیچے اتر آؤ اور انتظار کرو کسی فیصلہ کن گھڑی کا۔۔۔۔۔۔ 

 جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں

روئی کی طرح اڑ جائیں گے

ہم محکوموں کے پاؤں تلے

یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی

اور اہل حکم کے سر اوپر

جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی

جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے