تحریر: مہتاب عزیز
سعودی عرب کے شاہی خاندان میں اقتدار کی کشمکش اور طاقت کے توازن کی تبدیلی ہمیشہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا ایک مرکزی موضوع رہی ہے۔ اس موضوع پر بین الاقوامی محققین اور مصنفین نے خاصی توجہ دی ہے۔
معروف امریکی تجزیہ کار ڈیوڈ بی اوٹاوے (David B. Ottaway) نے اپنی کتاب Mohammed bin Salman: The Icarus of Saudi Arabia? میں ایم بی ایس کے اقتدار کے عروج کو ایک خطرناک جرات قرار دیا ہے جو داخلی توازن کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
اسی طرح بین ہوبز، کرسٹوفر ڈیوڈسن، بروس رائیڈل اور مدثر عالم جیسے مصنفین نے حالیہ برسوں میں متعدد کتب اور رپورٹس شائع کی ہیں جن میں شاہی خاندان کی اندرونی سیاست، مزاحمت اور مستقبل کے منظرنامے کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
ولی عہد محمد بن سلمان (ایم بی ایس) کے منظر عام پر آنے کے بعد سعودیہ میں اقتدار کی کشمکش نے بالکل ایک نئی شکل اختیار کر لی۔ روایتی طور پر آل سعود میں طاقت کی تقسیم سینئر شہزادوں کی مشاورت اور مختلف دھڑوں کے درمیان ایک غیر تحریری توازن کے تحت چلتی تھی، جس میں ’سدیری سیون‘ گروپ کی بالادستی اور بیعت کونسل کی رسمی منظوری اہم کردار ادا کرتی تھی۔
بادشاہت اور ولی عہدی کے فیصلے داخلی مشاورت اور بین الاقوامی حالات کے توازن میں کیے جاتے تھے مگر 2015 کے بعد سے، جب محمد بن سلمان نے تیزی سے اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کیں، یہ توازن ٹوٹنے لگا اور ایک غیر معمولی حد تک شخصی مرکزیت نے جنم لیا۔
محمد بن سلمان کے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے نمایاں واقعہ 2017 میں سابق ولی عہد محمد بن نایف کی برطرفی تھی۔ انسداد دہشتگردی کے ماہر اور مغرب کے قریبی اتحادی سمجھے جانے والے محمد بن نایف کو اچانک ہٹا کر عملی طور پر نظر بند کر دیا گیا۔
بیعت کونسل نے رسمی طور پر ایم بی ایس کے حق میں ووٹ دیا، لیکن پردے کے پیچھے دباؤ اور زبردستی استعفیٰ کی خبریں گردش کرتی رہیں۔ اس اقدام نے شاہی خاندان کے روایتی قوت توازن کو توڑ دیا اور طاقت براہِ راست ایک ہی شہزادے کے ہاتھ میں مرتکز ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی شاہی خاندان کے کئی بااثر ارکان کو نظر بند کیا گیا، میڈیا پر سخت کنٹرول قائم کیا گیا اور ریاستی اداروں کی خودمختاری کو محدود کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
سعودی عرب وہابیت سے تعلق توڑ رہا ہے؟
”ارطغرل“ نے عرب دنیا میں تہلکہ مچادیا، سعودی حکمران پریشان
سعودی بادشاہ اور ولی عہد کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوچکے؟
ڈیوڈ بی اوٹاوے اپنی کتاب *Mohammed bin Salman: The Icarus of Saudi Arabia?* میں لکھتے ہیں کہ محمد بن سلمان نے اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے نہ صرف سیاسی بلکہ خاندانی سطح پر بھی سخت اقدامات کیے۔ ان کے مطابق، محمد بن سلمان نے اپنے والد، بادشاہ سلمان، کو ایک طرح سے تنہا کر دیا، یہاں تک کہ انہیں اپنی اہلیہ فہدہ بنت فلاح اور ولی عہد کی والدہ سے ملنے سے روک دیا گیا۔
بادشاہ کو یہ باور کرایا جاتا رہا کہ ملکہ علاج کے لیے بیرون ملک ہیں، حالانکہ حقیقت میں وہ اور ان کی دو بیٹیاں گھر میں نظر بند تھیں۔ اس طرح کی خاندانی علیحدگی اور معلومات پر کنٹرول نے اقتدار کے اندرونی ڈھانچے کو پہلے سے کہیں زیادہ غیر شفاف اور شخصی بنا دیا۔ سعودی حکومت نے ان الزامات کی تردید کی، لیکن بین الاقوامی صحافیوں اور محققین نے اسے عرب روایت اور قبائلی اقدار سے ایک بڑی انحرافی حیثیت قرار دیا۔
بین ہبارڈ اپنی کتاب *MBS: The Rise to Power of Mohammed bin Salman* میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ محمد بن سلمان نے اپنے مخالفین کو منظم طریقے سے کمزور کیا، چاہے وہ شاہی خاندان کے اندر ہوں یا باہر۔ یہ حکمت عملی محض سیاسی نہیں بلکہ نفسیاتی بھی تھی—مخالفین کو الگ تھلگ کر کے ان کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا۔
برادلی ہوپ اور جسٹن شیک کی *Blood and Oil* اس تصویر کو مزید گہرائی دیتی ہے، جہاں وہ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح 2017 کے رِٹز کارلٹن کریک ڈاؤن کے ذریعے درجنوں شہزادوں، وزیروں اور کاروباری شخصیات کو حراست میں لے کر ان سے اربوں ڈالر کے اثاثے واپس لیے گئے۔ بظاہر یہ بدعنوانی کے خلاف مہم تھی، لیکن ناقدین کے مطابق اس کا اصل مقصد سیاسی صفائی اور مزاحمتی قوتوں کو کمزور کرنا تھا۔ متعب بن عبداللہ جیسے طاقتور شہزادے اپنے عہدوں سے محروم ہوئے اور شاہ عبداللہ کے گروپ کو فیصلہ کن ضرب لگی۔
محمد بن سلمان نے تمام ریاستی کونسلز کی سربراہی اپنے ہاتھ میں لے لی اور اعلیٰ افسران کی تقرری ذاتی وفاداری کی بنیاد پر کی۔ عدالتوں اور انسداد بدعنوانی کمیٹی کے ذریعے مخالفین کو نظر بند، معزول یا جائیداد سے محروم کیا گیا۔ اس عمل نے عدلیہ اور بیوروکریسی کی خودمختاری کو تقریباً ختم کر کے مکمل مرکزیت کی طرف قدم بڑھایا۔ سینیئر شہزادے احمد بن عبدالعزیز سمیت کئی شخصیات وقتی طور پر متحرک دکھائی دیں، لیکن کوئی منظم مزاحمتی اتحاد سامنے نہ آسکا۔ خوف، جلاوطنی اور سکیورٹی اداروں پر ولی عہد کے مکمل کنٹرول نے مزاحمت کو منتشر اور غیر مؤثر بنا دیا۔ خالد بن فرحان جیسے شہزادے بیرونِ ملک سے بیانات جاری کرتے رہے، مگر عملی قوت پیدا نہ کر سکے۔
بین الاقوامی سطح پر، امریکا اور مغربی طاقتوں نے محمد بن سلمان کو کھل کر سپورٹ کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں جمال خاشقجی قتل جیسے واقعات کے باوجود تعلقات میں کوئی بڑی رکاوٹ نہ آئی۔ برطانیہ اور یورپی یونین نے وژن 2030 کی اقتصادی اصلاحات میں تعاون کیا، جبکہ خطے میں مصر، امارات اور بحرین کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے گئے۔
وژن 2030 کے تحت شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی معیشت کو تیل پر انحصار سے نکالنے، سیاحت، انفراسٹرکچر، خواتین کے حقوق اور نیوم جیسے میگا پراجیکٹس پر توجہ دی۔ خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت، سیاحتی ویزا اور تفریحی صنعت کی ترقی جیسے اقدامات نمایاں اصلاحات کے طور پر سامنے آئے، لیکن ناقدین کے مطابق یہ اصلاحات بھی طاقت کے ارتکاز کا ہتھیار بنیں، جن کے ذریعے شاہی خاندان کے دیگر دھڑوں کو سیاسی طور پر غیر مؤثر کر دیا گیا۔
میڈیا اور اطلاعاتی محاذ پر سعود القحطانی کی سربراہی میں سخت کنٹرول قائم کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر بوٹس اور ہیش ٹیگ مہمات کے ذریعے مخالفین کی کردار کشی کی گئی، سنسرشپ اور فیکٹ چیکنگ کے نام پر اختلافی آوازوں کو دبایا گیا، اور صحافیوں و ناقدین کو بے دخل یا خاموش کر دیا گیا۔ یہ اطلاعاتی جنگ داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ایم بی ایس کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بنی۔
ان تمام اقدامات نے شاہی خاندان کے اندر موجود روایتی باہمی اعتماد کو متزلزل کر دیا۔ ماضی میں اختلافات کے باوجود خاندان کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ رسمی تعلقات برقرار رکھتے تھے، لیکن اب یہ تعلقات شدید کشیدگی کا شکار ہیں۔ بادشاہ کی اہلیہ اور بیٹیوں کی نظر بندی نے ذاتی اور خاندانی سطح پر بھی گہری خلیج پیدا کر دی۔ یہ نہ صرف شاہی خاندان بلکہ پوری ریاست کے استحکام کے لیے بھی کسی وقت خطرہ بن سکتا ہے۔
اقتدار کی اس غیر معمولی مرکزیت نے وقتی طور پر تو محمد بن سلمان کی گرفت کو مضبوط کیا ہے، لیکن طویل مدت میں یہ شاہی خاندان کے اندر مزید بے چینی اور ممکنہ مزاحمت کو جنم دے سکتی ہے۔ مستقبل میں جانشینی کے عمل میں ایک نئے بحران کا امکان بہت واضح ہے۔ جس سے یہ دراڑیں مزید کھل کر سامنے آ سکتی ہیں، اور سعودی عرب کی داخلی سیاست میں ایک نیا لیکن تلخ باب شروع ہو سکتا ہے۔
چونکہ خاندانی اتحاد کی روایت کمزور ہو چکی ہے اور داخلی یا خارجی دباؤ کی صورت میں بکھراؤ کے امکانات بڑھ چکے ہیں۔ معاشی و سماجی اصلاحات کے باوجود توازن کی کمی اور سیاسی سخت گیری داخلی بحران کی بنیاد بن سکتی ہے۔
بین الاقوامی حمایت اور وسائل کے باوجود یہ ماڈل مستقبل میں قیادت کے خلا، داخلی مزاحمت اور علاقائی دباؤ کے باعث بڑے بحران میں بدل سکتا ہے، اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر اوٹاوے، ہبارڈ اور دیگر محققین متفق دکھائی دیتے ہیں کہ ایم بی ایس کی موجودہ حکمت عملی سعودی عرب کے لیے ایک نیا دور تو لا چکی ہے، مگر اس کے ساتھ مملکت پر غیر یقینی اور خطرات کا بوجھ بھی بڑھا ہے۔
تبصرہ کریں