بشریٰ نواز۔۔۔۔۔۔۔۔
زینب کے مجرم کو پھانسی دے دی گئی لیکن بچوں کے اغوا اور قتل کے واقعات میں کوئی بھی کمی نہیں آئی نہ ہی یہ سلسلہ رک سکا ۔ کئی پھول مسلے گئے، کتنے ہی گھروں میں ویرانیوں نے ڈیرے ڈالے ۔ ایسی ہی کچھ خبریں ہم سن لیتے ہیں اور کچھ ہماری سماعت تک نہیں آتیں۔
ایبٹ آباد کی تین سالہ فریال جسے جنسی تشدد کے بعد مردہ سمجھ کے پھینک دیا گیا لیکن معصوم کی کچھ سانسیں باقی تھیں جو سردی میں پڑے پڑے پوری ہو گئیں۔ کتنی ہی معصوم کلیاں ان بدبختوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں۔ اور ان کے والدین ساری زندگی رو کے گزار دیتے ہیں۔
یہ وہ بھوت ہیں جن سے ما ئیں بچپن میں ڈرایا کرتی تھی، اب یہ بھوت پورا بچہ نگل لیتے ہیں۔ کوئی پکڑا گیا اور کوئی غائب ہو گیا۔ والدین کی لاکھ احتیاط کے باوجود یہ واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے، روز ہی آنکھیں ایسی خبریں پڑھتی ہیں،دل خون کے آنسو روتے ہیں۔
آج سے دس پندرہ سال پہلے ایسے واقعات اکا دکا سنائی دیتے تھے اب یہ مسلسل ہو رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ سب میڈیا کا کیا دھرا ہے، بےحیائی کے سین بیہودہ لباس لیکن ہم خود بھی سوچیں کہ اس کا ذمہ دار صرف میڈیا ہی ہے؟
بحیثیت والدین ہماری خود کی کیا ذمہ داری ہے؟ کیا کبھی سوچا ہم نے؟بیٹیوں کے لباس کا معاملہ دیکھیں۔ بیٹیوں کے چست لباس، ٹائٹس، شارٹ شرٹس، بغیر دوپٹے کے باہر جانا۔ بس! یہی کہا جاتا ہے کہ ابھی بچی ہی تو ہے، کیا ہوا اگر بغیر بازو کی قمیض پہن لی! بچی ہی تو ہے جو ٹائٹس پہن لی، ابھی بچی ہی تو ہے جو دوپٹہ نہیں لیا۔ مائیں یہ کیوں نہیں سوچتیں کہ یہ صرف ہماری بچی ہے کسی اور کی بدنظری کا شکار۔ ہم میڈیا کو نہیں بدل سکتے، بدنظروں کو نہیں پہچان سکتے۔ بس! اب جو کرناہے وہ ہمیں خود ہی کرنا ہے۔
بیٹیوں کو مناسب لباس پہنائیں، بہ حیثیت مسلمان اپنی بچیوں کو ابھی سے پردہ کرنا سیکھائیں،انھیں اکیلا باہر نہ جانے دیں، انھیں بتائیں کہ کسی بھی مرد کے قریب نہ جائیں۔ اگر کوئی بلائے تو وہ آپ کو بتاۓ، دینی تعلیم کے لیے قاری کی بجاۓ قاریہ کا انتظام کیا جاۓ، ٹیوشن کے لیے بھی مرد حضرات کی بجاۓ خوا تین کا انتظام کریں۔ بَچوں کو محلے کے گھروں میں جانے کی اجازت نہ دیں۔ اگر کہیں جانا ہے تو خود ان کے ساتھ جائیں۔