حامدمیر، اردوتجزیہ نگار

رسوائی نہیں آزادی چاہئے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

حامد میر۔۔۔۔۔۔۔۔
دو اہم باتیں‘ دو اہم لوگوں‘ نے ایک بہت ہی اہم اجلاس میں کہیں۔ پہلی اہم بات سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی زبان سے نکلی۔ انہوں نے کہا کہ ان شاء اللہ ہم مقبوضہ کشمیر کو اپنی زندگی میں آزاد ہوتا دیکھیں گے۔ دوسری اہم بات ریاست آزاد جموں و کشمیر کے منتخب وزیر اعظم راجہ محمد فاروق حیدر نے کہی۔ انہوں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ کشمیر کاز کو جتنا نقصان سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے پہنچایا اتنا نقصان بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے نہیں پہنچایا۔

یہ دونوں اہم باتیں ایک ایسے اجلاس میں کہی گئیں جس میں ایک طویل عرصے کے بعد اہم سیاسی و دینی جماعتوں کی مرکزی قیادت مسئلہ کشمیر پر مشاورت کیلئے موجود تھی۔ اس آل پارٹیز مشاورتی اجلاس کا اہتمام جمعیت علمائے اسلام اور متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل ا لرحمان نے کیا تھا۔ ان کے دائیں طرف مسلم لیگ(ن) کے چیئرمین سینیٹر راجہ ظفر الحق اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر تشریف فرما تھے۔ انکی بائیں طرف سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری اور ریاست آزاد جموں و کشمیر کے صدر مسعود خان بیٹھے ہوئے تھے۔

مرکز اور دو صوبوں کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی اس اجلاس میں عدم موجودگی نامناسب تھی تاہم وفاقی حکومت کی نمائندگی وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کر رہے تھے، جن کا تعلق ایم کیو ایم پاکستان سے ہے۔ ایم کیو ایم کے ایک اور رہنما عامر خان بھی اس اجلاس میں موجودتھے۔ وزیر اعظم عمران خان کی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے بھی اس اجلاس میں بڑے بھرپور انداز میں مظلوم کشمیری قوم کیساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ اس اجلاس کی اصل اہمیت یہ تھی کہ یہاں مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی قیادت موجود تھی۔

مقبوضہ کشمیر والوں کی نمائندگی کرتے ہوئےسید یوسف نسیم نے اپنا زخمی دل ہتھیلی پر رکھ کر اسلام آباد والوں کے سامنے رکھ دیا جو پاکستان کے ساتھ محبت سے معطر تھا۔ آزاد کشمیر کی طرف سے راجہ فاروق حیدر سے لیکر عبدالرشید ترابی تک سب یہ پیغام دے رہے تھے کہ ہمیں صرف اور صرف اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہئے اگر کوئی اس معاملے پر’’آئوٹ آف باکس‘‘ حل ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 257کی خلاف ورزی ہوگا اور ہمیں کسی قیمت پر قبول نہ ہوگا۔

اس مشاورتی اجلاس میں بریلوی، دیو بندی، اہل حدیث اور شیعہ علماء ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ تحریک اسلامی اور شیعہ علماء کونسل کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ کشمیریوں کی جدوجہد اور قربانیوں نے فرقہ واریت ختم کردی ہے اور آج پاکستان کے عوام کو کشمیریوں کی حمایت میں ایک بھرپور عوامی تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے دو سال قبل بھی کشمیر پر ایک آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔ اس وقت مولانا صاحب پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ تھے۔ اب وہ پارلیمنٹ کے رکن نہیں لیکن انہوں نے یوم یکجہتی کشمیر سے کچھ دن پہلے کشمیر کے نام پر صرف سیاسی و دینی جماعتوں کو ہی نہیں بلکہ ایسی جماعتوں کو بھی بلالیا جن پر پابندیاں لگ چکی ہیں اور عام طور پر ان جماعتوں کے نمائندوں کو ایسے اجلاسوں میں نہیں بلایا جاتا جہاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت بیٹھی ہو لیکن اس مشاورتی اجلاس میں آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان، لیاقت بلوچ، ساجد نقوی، راجہ ظفر الحق، جماعت ا لدعوۃ کے مرکزی رہنما امیر حمزہ، انصار الامہ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان خلیل اور جے یو آئی سمیع الحق گروپ کے مولانا شاہ عبدالعزیز ایک ہی میز پر موجود تھے۔

ایسا لگ رہا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کالعدم جماعتوں اور قومی سیاسی جماعتوں کے درمیان فاصلے کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جب آصف علی زرداری نے یہ کہا کہ ان شاء اللہ مقبوضہ کشمیر ہماری زندگی میں آزاد ہوجائے گا تو کچھ علماء نے انہیں حیرانی سے دیکھا لیکن میرے ساتھ بیٹھے ہوئے مولانا محمد الیاس چنیوٹی کی زبان سے نکلا ان شاء اللہ۔ کچھ لوگ زرداری صاحب کے الفاظ کو ایک سیاسی بیان قرار دے کرنظر انداز بھی کرسکتے ہیں لیکن ان ا لفاظ کی اہمیت ان سے پوچھئے جو آئے دن مقبوضہ کشمیر میں جنازے اٹھاتے ہیں اور اپنے جوانوں اور بچوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کرتے ہیں۔

اس مشاورتی اجلاس کو پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کامران مرتضیٰ نے بتایا کہ حکومت نے سابق اسپیکر قومی اسمبلی سید فخر امام کو پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ فخر امام کے نام پر اجلاس کے کئی شرکاء نے حیرت کا اظہار کیا۔ مولانا شاہ احمد نورانی کے صاحبزادے اور ایم ایم اے کے سیکرٹری اطلاعات شاہ اویس نورانی نے اپنی تقریر میں کہا کہ فخر امام کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنانے کا فیصلہ ایک غیر سنجیدہ حکومت کی غیر سنجیدہ کشمیر پالیسی کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ فخر امام کا مسئلہ کشمیر سے کبھی کوئی واسطہ نہیں رہا نہ کبھی وہ کسی کشمیر کانفرنس میں نظر آئے۔ جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ نے بھی موجودہ حکومت کی کشمیر پالیسی کو غیر سنجیدہ قرار دیا۔ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ راجہ ظفر الحق یا سینیٹر شیری رحمان کشمیر کمیٹی کی سربراہی کیلئے زیادہ مناسب ہوتیں۔

اس مشاورتی اجلاس سے خطاب کرنے والے اکثر مقررین نے نوابزادہ نصر اللہ خان، محترمہ بینظیر بھٹو اور قاضی حسین احمد کو بار بار یاد کیا جنہوں نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کیلئے اپنی بساط سے بڑھ کر کوشش کی۔ کئی مقررین نے بین السطور اور کچھ نے کھل کر ان خدشات کا اظہار کیا کہ کچھ بیک ڈور چینلز سے ایک دفعہ پھر مشرف کے اس چار نکاتی فارمولے پر بات چیت ہورہی ہے جسے کشمیری قیادت نے مسترد کردیا تھا۔ آزاد کشمیر کے صدر مسعود خان ایک سابق سفارت کار ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ مشرف کے فارمولے اور اس سے ملتا جلتا کوئی بھی فارمولا جس کا مقصد سرحدوں کو بدلے بغیر آزادی کے مطالبے سے دستبرداری ہو کشمیریوں کیلئے ناقابل قبول ہے۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو آزاد کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم کے الفاظ پر غور کرنا چاہئے۔

اس تاریخی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ فوجی ڈکٹیٹروں نے کشمیریوں کو ہمیشہ نقصان پہنچایا ہے اور بھارت کے عیار حکمران ان پاکستانی ڈکٹیٹروں کیساتھ مل کر کشمیریوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب عمران خان سے کہا گیا ہے کہ ذرا بھارت میں عام انتخابات کا انتظار کرلیں۔ ان انتخابات میں بی جے پی کو جیت جانے دیں، مودی کو دوبارہ وزیر اعظم بن جانے دیں پھر اسی مودی کیساتھ مل کر مسئلہ کشمیر حل کیا جائیگا۔ دلیل یہ ہے کہ مودی خود ایک کٹر ہندو بنیاد پرست ہے اور پاکستان کیساتھ مذاکرات کی مخالفت کرنے والوں سے صرف مودی ہی نمٹ سکتا ہے لیکن کیا مودی مسئلہ کشمیر کے کسی ایسے حل پر راضی ہوسکتا ہے جو کشمیریوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دے؟

مولانا فضل الرحمان نے تین فروری کو مودی کے دورہ سرینگر سے ایک دن قبل اسلام آباد میں کشمیر پر مشاورتی اجلاس کے ذریعہ مودی کے دورے کیخلاف ہڑتال کی کال کی حمایت بھی کی اور ان مذاکرات کی کڑی نگرانی کی منصوبہ بندی بھی کرلی ہے جو بھارت میں انتخابات کے بعد نئی دہلی اور اسلام آباد میں شروع ہونیوالے ہیں۔ پاکستان کی حکمران اشرفیہ یاد رکھے کہ کشمیری اپنے دل و دماغ سے بھارت کو نکال چکے، وہ ذہنی آزادی حاصل کرچکے اب انہیں جسمانی آزادی حاصل کرنی ہے، فیصلہ وہ کرچکے اعلان ہونا باقی ہے لہٰذا بیک ڈور چینل سے کوئی مشرف فارمولا نہیں چلے گا، ایسے فارمولوں سے پاکستان کو رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں