جاپان پرانےجرائم کی لپیٹ میں ہے۔ گزشتہ 20 سال کے دوران 65 سال سے زیادہ عمر کے جرائم پیشہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ بی بی سی کے ایڈ بٹلر پوچھتے ہیں کیوں۔
ہیروشیما کے ایسے گھر میں جہاں جیل سے رہا کیے جانے والے جرائم پیشہ افراد کو معاشرے میں واپس بھیجنے سے پہلے رکھا جاتا ہے۔ 69 سالہ توشیو تکاتا کہتے ہیں انھوں نے قانون اس لیے توڑا کہ وہ بہت غریب تھے۔ وہ کسی ایسی جگہ رہنا چاہتے تھے جہاں کرایہ نہ دینا پڑے، چاہے وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی کیوں نہ ہو۔
‘میری پینشن کی عمر ہو گئی تھی اورمیں کنگال ہو گیا۔ لہذا میرے ذہن میں آیا شاید جیل ہی ایسی جگہ ہے جہاں میں مفت میں رہ سکتا ہوں۔`
‘پس میں نے سائیکل چرائی، تھانے پہنچا اور وہاں موجود شخص کو بتایا: ‘دیکھو، میں یہ چرا کے لایا ہوں۔“
یہ منصوبہ کامیاب رہا۔ یہ توشیو کا پہلا جرم تھا جو انھوں نے 62 سال کی عمر میں کیا۔ لیکن چونکہ جاپانی عدالتیں ایسے معمولی جرائم کو بہت سنجیدگی سے لیتی ہیں، اس لیے یہ انہیں ایک سال کی سزا دلوانے کے لیے کافی تھا۔
چھوٹے سے، نازک اور ہنس مکھ دکھنے والے توشیو، کہیں سے بھی عادی مجرم نہیں لگتے۔ خاص کر ایسے تو بلکل نہیں جس نے عورتوں کو چھریوں سے ڈرایا ہو۔ لیکن پہلی بار جیل سے رہائی کے بعد، انھوں نے بلکل ایسا ہی کیا۔
‘میں نے پارک میں جا کر صرف ان کو ڈرایا۔ میری انہیں نقصان پہنچانے کی کوئی نیت نہیں تھی۔ میں نے صرف انہیں چھریاں دکھائیں تاکہ ان میں سے کوئی پولیس کو کال کر دے۔ اور ایک نے کر بھی دی۔
کل ملا کر توشیو نے گزشتہ آٹھ سالوں میں سے آدھا وقت جیل میں گزارا ہے۔
جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا انہیں جیل میں رہنا پسند ہے، تو انہوں نے ایک اضافی مالی فائدے کا بتایا کہ جب وہ سلاخوں کے پیچھے ہوں تب بھی ان کی پینشن جاری رہتی ہے۔
’ایسا نہیں ہے کہ مجھے یہ پسند ہے لیکن میں وہاں مفت میں رہتا ہوں اور جب مجھے رہائی ملتی ہے تب تک میں کافی پیسے جمع کر چکا ہوتا ہوں۔ اس لیے یہ اتنا دشوار نہیں۔ `
توشیو، جاپانی جرائم میں ایک حیران کن رجحان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک قابلِ ذکر، قانون کا احترام کرنے والے معاشرہ میں، تیزی سے بڑھتے ہوئے جرائم کو کرنے والے افراد کی عمر 65 سال سے زیادہ ہے۔ سنہ 1997 میں اس عمر کے، لوگوں کے کم سے کم 5 فیصد افراد کو مجرم ٹھرایا گیا، لیکن 20 سال بعد ان کی تعداد بڑھ کر 20 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔
توشیو جیسے عمر رسیدہ افراد، قانون توڑنے والے عادی مجرم ہیں۔ سنہ 2016 میں 65 سال سے زیادہ عمر کے جن 2500 لوگوں کو سزائیں ملیں ان میں سے ایک تہائی سے زیادہ پانچ سے زیادہ بار سزائیں بگھت چکے تھے۔
اس کی ایک اور مثال کیکو(اصلی نام نہیں) ہیں۔ چھوٹی سی، صاف ستھری نظر آنے والی، 70 سالہ۔ وہ بھی یہی کہتی ہیں کہ ان کے جرم کی وجہ غربت ہی بنی۔
’میری اپنے شوہر سے بنتی نہیں تھی، اور میرے پاس رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ پس چوری کرنا میرے لیے آخری راستہ تھا`۔ حتی کہ 80 سالہ عمر کی وہ عورتیں جو چل بھی نہیں پاتیں، جرائم کر رہی ہیں۔ کیونکہ انھیں خوراک اور پیسے نہیں ملتے۔
کچھ مہینے پہلے ہم نے ایک سابقہ مجرم کے ہوسٹل میں اس سے بات چیت کی۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے اور وہ اب دکان میں چوری کرنے پر جیل میں ایک اور مدت کاٹ رہی ہیں۔
بزرگ مجرمان میں سب سے عام جرم دکان سے چوری کرنا ہے۔ یہ اکثر 3000 یین یا 20 پاؤنڈ سے کم کا کھانا کسی ایسی دکان سے چوری کرتے ہیں جدھر وہ معمول کے گاہک ہوں۔
آسٹریلین نژاد مائکل نیومن ٹوکیو کے ایک تحقیقی ادارے کسٹم پراڈکٹس ریسرچ گروپ میں ڈیموگرافر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جاپان کی سرکاری پینشن پر رہنا بہت مشکل ہے۔
2016 میں شائع کیے گئے ایک مضمون میں انہوں نے اندازہ لگایا کہ صرف کرائے، کھانے اور ہیلتھ کیئر کے خرچے کے بعد پینشن ملنے والے کی اگر کوئی اور ذریعہ آمدن نہ ہو تو وہ قرضے میں ہوگا۔ اور وہ بھی کپڑوں یا ہیٹنگ کے بغیر۔ ماضی میں بچے اکثر ماں باپ کی دیکھ بھال کرتے تھے، لیکن صوبوں میں معاشی مواقع نہ ہونے کی صورت میں کئی نوجوان شہروں کا رخ کر کے والدین کو اکیلا چھوڑ گئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ‘پینشن وصول کرنے والے اپنے بچوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتے، انہیں لگتا ہے کہ اگر سرکاری پینشن پر گزارہ نہیں ہو سکتا تو آسان طریقہ یہی ہے کہ اپنے آپ کو جیل پہنچا دیا جائے۔
دوبارہ انھی جرائم میں ملوث ہونا واپس جیل جانے کا حربہ ہے جہاں دن میں تین وقت کا کھانا ملتا ہے اور کوئی خرچے نہیں چکانے پڑتے۔
‘ایسی ہی بات ہے جیسے آپ کو باہر دھکیلا جائے اور آپ اپنے آپ کو واپس اندر دھکیل دیں۔’
نیومن کا یہ بھی کہنا ہے کہ بزرگوں میں خودکشی بھی عام ہوتی جا رہی ہے، جو کہ ان کے لیے اپنے ‘فریضے’ کو پائے تکمیل تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔
‘وِتھ ہیروشیما’ وہ بہالی کا مرکز ہے جہاں میں ٹوشیو تکاتا سے ملا۔ اس کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ جاپانی خاندانوں میں تبدیلیوں کے باعث یہ بزرگ جرائم میں ملوث ہو رہے ہیں، لیکن ان کا اشارہ مالی سے زیادہ نفسیاتی مسائل کی طرف ہے۔
85 سالہ کانچی یمادا بچے تھے جب انکو ہیروشیما پر ایٹم بم گرنے کے بعد اپنے گھر کے ملبے سے نکالا گیا۔ ان کا کہنا ہے ‘بالاخر لوگوں کے آپس کے رشتے بدل گئے ہیں۔ لوگ اور تنہا ہو گئے ہیں۔ ان کو معاشرے میں جگہ نہیں ملتی اور وہ اپنے اکیلے پن کا سامنا نہیں کر سکتے۔’
‘وہ بزرگ جو ان جرائم میں ملوث ہوتے ہیں، اُن کی وسط عمری میں کچھ ہوا ہوتا ہے۔ یا وہ اپنے بیوی بچوں کو کھو دیتے ہیں۔ اکثر اگر لوگوں کی دیکھ بھال اور سہارے کے لیے کوئی ہو تو وہ جرم کی طرف نہیں آتے۔’
کانِچی یمادا سمجھتے ہیں کہ ‘توشیو کے غربت کی وجہ سے جرم کی راہ پر آنا محض ایک بہانہ ہے۔ اصلی مسئلہ ان کی تنہائی ہے۔ اور ان کے لگاتار جرائم کی ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شاید جیل میں کسی کا ساتھ مل جائے۔’
یہ سچ ہے کہ توشیو دنیا میں اکیلے ہیں۔ ان کے والدین مر چکے ہیں اور ان کا اپنے دو بڑے بھائیوں سے کوئی رابطہ نہیں جو کہ ان کا فون بھی نہیں اٹھاتے۔ دو سابقہ بیویوں سے بھی طلاق کے بعد تعلق ختم ہے اور اپنے تین بچوں سے بھی۔
میں نے ان سے پوچھا کہ اگر ان کے بیوی بچے ہوتے تو کیا زندگی فرق ہوتی۔ انھوں نے کہا ہاں۔
وہ کہتے ہیں ‘اگر وہ مجھے سہارا دینے کے لیے ہوتے تو میں یہ نہ کرتا’۔
مائکل نیومن نے جاپانی حکومت کو جیلوں کی گنجائش بڑھاتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور خواتین سکیورٹی اہلکار کی تعداد کو بھی (بزرگ خواتین مجرمان کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے لیکن مردوں سے ابھی بھی کافی کم ہے)۔ انہوں نے جیل میں لوگوں کے علاج پر تیزی سے بڑھتے ہوئے خرچے پر بھی نظر رکھی ہوئی ہے۔
اور بھی تبدیلیاں آئی ہیں جیسے کے میں خود ٹوکیو کے باہر فوچو کے ایک جیل میں دیکھ سکتا ہوں، جہاں ایک تہائی سے زائد قیدی 60 سال سے زیادہ عمر کے ہیں۔
جاپانی جیلوں کے اندر بہت مارچ کروایا جاتا ہے اور اس دوران چیخنا چلانا بھی بہت ہوتا ہے۔ لیکن یہاں فوجی مشق کروانا تھوڑا مشکل ہو رہا ہے۔ پلٹن کے پیچھے مجھے کچھ بوڑھے قیدی بھی نظر آتے ہیں جن سے مشق نہیں ہو رہی۔ وہ بیساکھی کا استعمال بھی کر رہے ہیں۔
جیل میں تعلیم کے سربراہ مساٹسوگو یزاوا کہتے ہیں ‘ہمیں یہاں کی سہولیات کو بہتر کرنا پڑا۔ ہم نے ریلنگ اور خاص ٹوئیلٹس بھی لگوائے ہیں۔ بزرگ مجرمان کے لیے کلاسز بھی ہوتی ہیں۔’
وہ مجھے ایسی ایک کلاس دکھانے کے لیے لے جاتے ہیں۔ اس کی شروعات ایک کیریوکی کے گانے سے ہوتی ہے، دی ریزن آئی واز بورن، جو کہ زندگی کے معانی کے بارے میں ہے۔ سب قیدیوں کی گانے پر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ کچھ جزباتی بھی نظر آتے ہیں۔
یزاوا کہتے ہیں ‘ہم گاتے ہیں تاکہ ان کو احساس ہو کہ اصلی زندگی جیل کے باہر ہے اور خوشی بھی۔ لیکن ان کو پھر بھی لگتا ہے کہ جیل کی زندگی بہتر ہے اور اکثر لوگ لوٹ کر آتے ہیں۔’
مائکل نیومن کا یہ ماننا ہے کہ عدالتی کاروائی اور جیل کے بغیر بزرگوں کا خیال رکھنا زیادہ بہتر بھی ہوگا اور سستا بھی۔
وہ کہتے ہیں ‘ہم نے ایک ایسے ماڈل کا تخمینہ لگایا جس کے تحت ہم رٹائیرڈ افراد کے لیے گاؤں بنانا چاہتے ہیں جہاں یہ آدھی پینشن چھوڑ کر مفت کا کھانا، رہائش اور ہیلتھ کیئر وصول کر سکتے ہیں اور باقی رہائشیوں کے ساتھ کیریوکی اور گیٹ بال بھی آزادی سے کھیل سکتے ہیں۔ اس وقت جو حکومت جتنا خرچ کر رہی ہے، یہ کام اس سے کافی کم میں ہو سکتا ہے۔’
لیکن انہیں جاپانی عدالتوں کا معمولی جرائم پر سزائیں دینے کا رحجان، جرم کی اصل سزا کے حساب سے کچھ بےتکا سا لگتا ہے۔
وہ اپنی 2016 کی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ ‘ 200 یین (1.40 پاؤنڈ) کے سینڈ وچ کی چوری کا مطلب ، 8.4 ملین یین (580000 پاؤنڈ) ٹیکس بل ہے جو دو سال کی سزا پر آنے والا خرچ بنتا ہے۔`
شاید یہ ایک فرضی مثال ہو، لیکن میں ایک ایسے ہی تجربے سے گزرے ہوئے مجرم سے ملا۔ جسے 2.50 پاؤنڈ کی مرچوں کی بوتل چرانے پر دوسری بار، دو سال کی سزا ملی ہے۔
میں نے موریو موچزوکی، جو جاپان میں 3000 پرچون کی دکانوں کو سیکیورٹی فراہم کرتے ہیں سے سنا، کہ عدالتیں دکانوں سے چوری کرنے والوں پر زیادہ سختی کر رہی ہیں۔
جاپان کی جیل سروس کے مسویوکی شو کہتے ہیں، ‘حتی کہ اگر وہ بریڈ کا ایک ٹکڑا بھی چرائیں تو مقدمے کے دوران انہیں جیل بھیجنا مناسب سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں انہیں معاشرے میں جرم کیے بغیر رہنا سکھانا چاہیے۔`
مجھے نہیں معلوم جیل سروس نے توشیو تکاتا کو یہ سبق سکھایا یا نہیں، لیکن جب میں نے ان سے اگلے جرم کے ارادے سے متعلق پوچھا تو انھوں نے انکار کیا۔
انھوں نے کہا ‘نہیں، اب بس۔`
‘میں دوبارہ ایسا نہیں کرنا چاہتا، میں جلد ہی 70 سال کا ہونے والا ہوں، اگلی بار تک میں بوڑھا اور کمزور ہو جاؤں گا۔ میں پھر سے یہ نہیں کروں گا۔`
(بشکریہ بی بی سی)