مولانا وحیدالدین خان۔۔۔۔۔۔۔۔
اجتماعی زندگی (social life) میں باعزت زندگی حاصل کرنے کی ایک لازمی شرط ہے – اس شرط کا تعلق 50 فیصد آپ سے ہے اور 50 فیصد دوسروں سے – وه یہ کہ آپ دوسروں کے لئے یا تو مفید انسان (giver preson) بنیں یا آپ دوسروں کے لئے بے مسئلہ انسان بن جائیں – پہلی صورت زیاده سے زیاده شرط کی ہے ، اور دوسری صورت کم سے کم شرط کی – ان دو کے سوا کوئی تیسری صورت سماج میں باعزت بننے کی نہیں – جو لوگ تیسری قسم سے تعلق رکهتے هوں ان کو کسی سماج میں اگر جگہ ملے گی تو سماج کے کوڑا خانے میں – سماج کے مطلوب شخص کا درجہ ان کو کبهی ملنے والا نہیں –
اجتماعی زندگی ہمیشہ لو اور دو کے اصول پر قائم هوتی ہے – اس اصول کے مزکوره دو پہلو ہیں – اگر آپ سماج کو مثبت معنوں میں کچهہ دے رہے ہیں تو آپ سماج کے اندر مطلوب انسان کا درجہ پائیں گے ، اور اگر آپ اپنی طرف سے سماج کو کچهہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو آپ کو کم از کم یہ کرنا چاہئے کہ آپ دوسروں کے لئے ایک بے مسئلہ انسان بن جائیں – اگر آپ سماج کے ایک دینے والے ممبر ہیں تو آپ سماج کی ترقی میں اضافہ کر رہے ہیں ، اور اگر آپ سماج کے بے مسئلہ انسان ہیں ، تب بهی آپ کا ایک سماجی رول ہے ، وه یہ کہ آپ سماج کی ترقی میں کوئی خلل نہیں ڈال رہے ہیں – پہلا انسان اگر سماج کی ترقی میں براه راست معاون ہے تو دوسرا انسانی سماج کی ترقی میں بالواسطہ معاون کی حیثیت رکهتا ہے –
جن لوگوں کا حال یہ هو کہ مزکوره دونوں شرطوں میں سے ایک شرط بهی پورا نہ کریں ، وه سماج کے لئے صرف ایک بوجهہ کی حیثیت رکهتے ہیں – ایسے لوگ اگر چہ روایتی قانون کی نظر میں مجرم نہیں ہیں لیکن وه آداب حیات کے پہلو سے یقینا ایک غیر قانونی مجرم کی حیثیت رکهتے ہیں – دنیا کی قانونی عدالت میں اگر چہ ان کے خلاف کسی سزا کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا لیکن فطرت کی عدالت میں وه بلاشبہہ ایک اخلاقی مجرم کی حیثیت رکهتے ہیں –
(الرسالہ ، مارچ 2015)