نئے بیانئے کی بحث

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فاروق عادل۔۔۔۔۔۔۔
بیرسٹر ظفراللہ خان کو سیاست میں دیکھا تو حیرت ہوئی۔سبب یہ ہے کہ وہ ایک الگ دنیا کے باسی ہیں۔علم و ادب، تعلیم و تعلم نیز تصوف۔ان کا تعارف نیا نہیں تھا لیکن جب تصوف پر ان کی کتاب’’ مقامات‘‘ شائع ہوئی تو غائبانہ تعارف ایک طرح کے ذاتی تجربے میں بدل گیا، گو ملاقات اس کے باوجود نہیں ہوئی۔

ہوا یہ کہ صدر ممنون حسین نے مجھے بلا کر یہ کتاب میرے حوالے کی پھراس موضوع پر اپنے خیالات سے آگاہ کیا اور کہا کہ آپ بھی اچھی طرح سے یہ کتاب پڑھ لیں کیوں کہ مطالعے کی لذت بلامعاوضہ نہ ہوگی، تقریر بھی تیار کرنی پڑے گی۔
یہ تجربہ ان صاحب کو جاننے کے لیے شاہ کلید بن گیا اور میں نے یہ جانا کہ اس شریف آدمی کو سیاست کی وادی میں اگر چہ کامیاب ہی سمجھنا چاہئے لیکن اس کے باوجود ہے یہ کسی اور دنیا کا آدمی۔ پھر جب برادرم خورشید احمد ندیم کے ساتھ ’’ کسی اور زمانے کا خواب‘‘ کے عنوان سے ٹیلی ویژن پر ان کی گفتگوئیں سننے کا اتفاق ہوا تو میرا یہ تاثر مزید قوی ہوا۔

ابھی پرسوں پرلے روز ان سے ملاقات ہوگئی۔انھوں نے بڑے احترام لیکن دکھی دل کے ساتھ دو بزرگوں کو یاد کیا۔ان میں ایک سیدابوالاعلیٰ مودودی تھے اور دوسرے مرحوم حمید نظامی۔ذکر یہ تھا کہ آج ہمارے اہلِ علم نیز اہل ِ حکم گزشتہ ستر پچھتربرس کے تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قوم کو ایک نئے بیانئے کی ضرورت ہے، ایک ایسا بیانیہ جو ابنائے وطن کو نظریاتی اور فکری طور پر اِدھر اُدھر بھٹکنے سے بچائے، راہِ راست پر رکھے اور قوموں کی برادری میں نکو بننے سے بچائے۔

یہی فکر ہے جو بروئے کار آئی تو پیغام پاکستان نامی دستاویز وجود میں آئی جس پر تمام تر دینی مکاتب فکر کے بزرگ اکٹھے ہوئے اور اُس سب کچھ سے اظہار بریت کیا جس کے سبب گزشتہ چند دہائیوں کے دوران میں اس قوم کے جوانوں کو ایک ایسی راہ پر دھکیل دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں پوری قوم پر تباہی مسلط ہوگئی۔ہمیں اپنے ستر ہزار فرزندوں کی قیمتی جانوں کی قربانی دینی پڑی۔ مادی، روحانی ، تہذیبی و ثقافتی نیز فکری اعتبار سے ہم جس کسمپرسی کا شکار ہوئے، وہ الگ باب ہے۔

بیرسٹر ظفراللہ خان نے بتایا کہ آج جس نئے قومی بیانئے کی تشکیل کی کوششوں میں ہم مصروف ہیں، اس کی داغ بیل قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی پڑ گئی تھی۔ایک بزرگ تھے علامہ محمد اسد، فی الحقیقت جنھیں شاعر مشرق کا شاگرد رشید سمجھنا چاہئے، یہی وہ رجل رشید تھے جنھوں نے پاکستان کو اپنے خوابوں کا دیس جانا ، اپنے اصل وطن پر اسے ترجیح دی اور ہمیشہ کے لیے اسی کے ہورہے تاکہ اس ملک کو ان خوابوں کی تعبیر دی جاسکے جن کے لیے یہ ملک وجود میں آیا۔

علامہ اسد مرحوم علامہ اقبالؒ کے تربیت یافتہ تھے، لہٰذا جو بات کرتے ، قرآن و سنت سے حوالہ لاتے اور کوشش کرتے تھے کہ صدیوں سے رائج اُن تصورات کی بیخ کنی کی جائے جن کی کارفرمائی سے منزل کے کھوٹے ہونے کااندیشہ ہے۔بس، یہی ان کا جرم بن گیا اور فضا ان کے خلاف شور و غوغے سے مسموم ہوگئی۔نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ وہ شخص جسے اس ملک نے اس اعزاز کا مستحق سمجھا تھا کہ اپنی پہلی سیاسی شناختی دستاویز یعنی پاکستان کا پہلا پاسپورٹ اس کے نام جاری کیا تھا، پاکستان کو چھوڑنا پڑا۔
اس مشکل گھڑی میں پاکستان سے فقط دو آوازیں ان کے حق میں بلند ہوئیں، ایک آواز علمی میدان میں ان سے اختلاف کرنے والے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تھی اور دوسری وطن عزیز میں جمہوریت اور رواداری جیسی نعمتوں کے لیے قلمی جہاد کرنے والے مرحوم حمید نظامی کی۔

بیرسٹر صاحب نے دکھ کے ساتھ کہا کہ جنھیں سننا چاہئے تھا،وہ اس زمانے میں علم و حکمت کی بات سن لیتے، یا چلئے، اب باب میں کوئی سقم رہ ہی گیا تھا تو وہ مولانا مودودیؒ اور حمید نظامی جیسے نابغوں ہی کے حرف نصیحت پر توجہ دیتے تو آج ہمیں اس تباہی کا سامنا نہ کرنا پڑتا جس کی وسعتوں کو سمیٹتے سمیٹے آج ہم ہانپنے لگے ہیں۔

حیرت ہوتی ہے کہ جو ملک قائداعظمؒ اور اقبالؒ جیسے دیو قامت اور وسیع النظر بزرگوں کے ہاتھوں وجود میں آیا ،اُس پر ایسے ایسے بالشتیوں کو اختیار ملا جنھیں نہ اپنے عہد کے تقاضوں کی خبر تھی اور نہ مستقبل کی ضروریات کی سمجھ۔ نتیجہ یہی نکلنا چاہئے تھا جو نکلا۔ قیام پاکستان کے بعد بالغ نظری کے جس سفر کا آغاز علامہ اسدؒنے کیا تھا ،ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج اس کی ضرورت معاشرے کے تمام طبقات محسوس کرتے ہیں اور پاکستان کے اہلِ علم اور علمی ادارے اس ضرورت کی تکمیل کو اپنی پہلی ذمہ داری خیال کرتے ہیں۔

اسے بھی حسنِ اتفاق ہی سمجھنا چاہئے کہ ماضی میں جس طرح کسی اور خطے کے چشم و چراغ یعنی علامہ اسد نے پاکستان کا بیٹا بن کر پاکستان کی علمی و فکر تصویر میں رنگ بھرنے کی کوشش کی تھی، اسی طرح آج ایک اور سرزمین سعودی عرب کا بیٹا یعنی ڈاکٹر احمد یوسف احمد الدرویش اسی ادھورے کام کی تکمیل پر کمر بستہ ہوگیا ہے۔

ڈاکٹر درویش نے ان دنوں نے تکفیر، وسطیت یعنی اعتدال پسندی ، اولی الامر کی اطاعت، اسلامی فکر کی روشنی میں قومی ریاستوں کے جواز اور ملک و قوم کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے موت کے موضوعات پر وقیع علمی کام کیا ہے۔ یہ موضوعات ایسے ہیں جن پر پاکستانی معاشرے میں بھی بڑے پیمانے پر افراط و تفریط پایا جاتا ہے اور مسلم دنیا کے بہت سے حصوں میں بھی۔

یہ امر بھی باعثِ مسرت ہے کہ اقبالؒ انسٹیٹیوٹ برائے تحقیق و مکالمہ نے ان دنوں اپنی تمام ترتوجہ ایسے ہی موضوعات پر مرکوز کررکھی ہے ۔ اس کے سربراہ ڈاکٹر حسن الامین کوجو خود بھی اعلیٰ پائے کے محقق ہیں اور پوسٹ اسلام ازم جیسے دقیق موضوع پر تحقیق کرکے داد حاصل کرچکے ہیں ان امور پر انھیں جہاں کہیں سے بھی کوئی علمی کام میسر آتا ہے، اسے حسن طباعت سے آراستہ کرکے قوم کی خدمت میں پیش کردیتے ہیں۔

چناں چہ اس ہفتے ڈاکٹر درویش کی علمی تحقیق کے علاوہ اسی موضوع پر علامہ محمد اسد کی بکھری ہوئی دستاویزات کے ساتھ ساتھ اس سرزمین کے ایک اور دلیر فرزند ڈاکٹر محمد فاروق شہید کے افکار بھی یک جا کر کے انھوںنے قوم کے سامنے پیش کردیے ہیں تاکہ نئے بیانئے کی بحث میں مزید وسعت پیدا ہو اور قوم علمی بیداری کی نعمت سے مالامال ہوسکے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں