ڈاکٹر میمونہ حمزہ۔۔۔۔۔۔
آزاد کشمیر سے آنے والی ویگن راولپنڈی کے اڈے پر پہنچ چکی تھی،عالیہ نے ہینڈ بیگ سنبھالا اور عبد الرحیم کو ساتھ لے کر نیچے اتر گئی۔ ساتھ ہی ایک ٹیکسی اس کے قریب رکی، ڈرائیور کو منزل کا پتہ بتایا، کرایہ طے کیا اور اطمینان سے بیٹھ گئی۔ عبد الرحیم نے کہا بھی، ”امی ماموں کو کال کر لیتی نا“، مگر وہ مطمئن تھی۔ ”تھوڑی دیر میں گھر پہنچ جائیں گے، ماموں کو آتے نجانے کتنا وقت لگے“۔
راولپنڈی کے پر پیچ راستے اور ٹریفک سگنل سفر کو مزید طویل بنا دیتے ہیں، وہ بیٹے کو ہولے ہولے مطمئن کرنے لگی۔ تھوڑا سا سفر ہی طے ہوا تھا کہ ٹیکسی اچانک رک گئی۔ اس میں کچھ خرابی پیدا ہو گئی تھی، اور نصف النہار میں ڈرائیور انہیں بیچ سڑک اتار کر چلا گیاتھا۔
اب ماں بیٹا دھوپ میں پریشان حال کھڑے تھے۔ عالیہ نے بھائی کو کال کی تو پتا چلا کہ موصوف شہر کے دوسرے کونے میں ہیں، اور پہنچنے میں ایک گھنٹہ بھی لگ سکتا ہے۔
”بیٹا اب تو ٹیکسی پر ہی جانا پڑے گا“ عالیہ نے تھکے لہجے میں کہا۔
عبد الرحیم نے بلا دیکھے بوجھے ہر ٹیکسی اور گاڑی کو ہاتھ دینا شروع کردیا، دھوپ اور بھوک دونوں نے اسے مضطرب کر رکھا تھا، عالیہ نے اسے ٹوکنا چاہا، مگر اگلے ہی لمحے ایک ٹیکسی کے ٹائر چرچرائے اور وہ ان سے ذرا فاصلے پر رک گئی۔ عبد الرحیم اس کی جانب بھاگا، مگر عالیہ نے اس کا ہاتھ تھاما، ”دیکھ نہیں رہے اس میں سواریاں بیٹھی ہیں“۔
اس کی پس و پیش دیکھ کر ٹیکسی ریورس میں اس کے قریب آگئی۔
"کہاں جانا ہے آپ کو؟” ڈرائیور کے بجائے ایک سواری نے استفسار کیا۔
”مجھے افشاں کالونی جانا ہے“۔
”آ جائیں ہم بھی ادھر ہی جا رہی ہیں“۔دونوں خواتین ہم آواز بولیں۔ ڈرائیور کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا، اس نے کرایہ بھی طے نہ کیا اوربیٹھنے کے لئے آگے بڑھی۔ خواتین نے آگے بڑھ کر عبد الرحیم کو سیٹ پر بٹھایا، عالیہ نے ٹیکسی میں بیٹھ کر بھائی کو آگاہ کیا اور موبائل بیگ میں رکھا، زپ بند کی، اور حسب ِ معمول سفر کی دعا میں مشغول ہو گئی۔
عبد الرحیم اپنی نشست پر بے چین تھا، شاید ساتھ والی خاتون کا بوجھ اس پر پڑرہا تھا، اس نے بیٹے کو گود میں لینے کا ارادہ کیا تو ایک خاتون نے ہمدردی میں اس کا بیگ پکڑلیا۔ ساتھ والی خاتون عجیب طریقے سے اس پر دبائو ڈال رہی تھی، اور ساتھ ہی تنگی کا اظہار بھی کر رہی تھی، ”اوہ جی، ہم تو بہت تنگ ہو رہے ہیں، آپ ذرا پرے ہو کر بیٹھو جی“۔
عالیہ تنگ دل تو ہوئی مگر کچھ اور سمٹ گئی، دوسری عورت بولی:
”ابھی تو میری بہن نے بھی بیٹھنا ہے اگلے چوک سے۔۔“۔
”ایک اور سواری کا تو آپ نے نہیں بتایا تھا مجھے، آپ نے خود ٹیکسی روک کر مجھے بلایا، جگہ نہیں تھی تو آواز کیوں دی“، عالیہ ابھی تک ان کے بدلے ہوئے رویے پر حیران تھی۔
”میڈم آپ اتر جائیں، میں نے تو ان سواریوں کو ہی بٹھایا ہے، انہوں نے ہی آپ کو بٹھالیا تھا، یہ نہیں چاہتیں تو میں کیا کرسکتا ہوں“
ڈرائیور کا رویہ حد درجہ بےزار تھا، اور مزید کوئی بات کہے بنا اس نے ٹیکسی سڑک کے کنارے روک دی۔
نیچے اترتے ہوئے دونوں کے چہرے لٹکے ہوئے تھے، عالیہ نے بے بسی سے بھائی سے رابطے کے لئے موبائل نکالنے کے لئے بیگ کی زپ کھولی، اور اگلے کچھ ثانیے بیگ کی تمام اشیاءاوپر نیچے کرنے اور بیگ کی تمام جیبیں جھانکنے کے بعد بھی موبائل نہ ملا۔۔
اس کا دماغ کھول کر رہ گیا، ٹیکسی ملنے، اصرار سے بلانے اور ہٹ دھرمی اور بے دید انداز میں لبِ سڑک چھوڑ جانے کی کہانی کے سارے واقعات پلک جھپکتے اس کی نگاہ میں پھرنے لگے۔ اسے احساس ہوا کہ ڈرائیور اور سواریاں تو ملی بھگت سے اسے دھوکہ دے رہے تھے۔
عبد الرحیم نے بڑی خاموشی کے ساتھ دوسری ٹیکسی روکی، افشاں کالونی کا ایڈریس بتا کر وہ اس میں بیٹھ گئے۔ موبائل چھن جانے نے دونوں کو بے چین رکھا، ان کے اعتبار کا کیسے خون ہو گیا تھا۔ اگلے چند روز تک وہ ماں سے یہی اصرار کرتا رہا کہ اب نیا موبائل نہیں لینا، مگر موبائل کے بغیر دن کافی طویل ہو گیا تھا۔ عالیہ کا سب سے رابطہ کٹ گیا تھا، اور عبدالرحیم بھی انٹرٹینمنٹ کے بغیر بولایا پھررہا تھا۔
چند دن میں ہی اس نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا تھا۔ امی جی، کوئی سیکنڈ ہینڈ سیٹ لے لیں، جو کسی بھی طرح قیمتی اور خوبصورت نہ ہو، جس کو دیکھ کر کسی فراڈیے کو دھوکہ دہی کا خیال نہ آئے، بس کال ہوتی ہو اس سے ۔۔
اور انٹر نیٹ کنیکشن؟
”آپ کا واٹس ایپ تو بالکل نہیں چلنا چاہئے، فیس بک بھی نہیں ۔۔“ وہ جوش سے بولا۔
”اور آن لائن گیمز ۔۔ اور ۔۔۔“ عالیہ کے جملہ مکمل کرنے سے پہلے ہی وہ بولا:
”سمارٹ فون بے شک لے لیں، مگر بیگ کسی آنٹی کو نہیں پکڑانا ۔۔“۔
”آنٹی یا چور۔۔“ عالیہ سوچ کر ہی رہ گئی۔