فیس بک

پاکستانی فوج اور کشمیر سے متعلقہ متعدد فیس بک اکائونٹ بند کردئیے گئے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سماجی روابط کی ویب سائٹ فیس بک نے پاکستان اور بھارت میں ’غیرمنظم رویے‘ اور اسپیمنگ کی وجہ سے 712 اکاؤنٹس اور 390 پیجز بند کر دیے۔

سوشل میڈیا کے مقبول پلیٹ فارم فیس بک نے پاکستان اور بھارت میں ’4 علیحدہ، مختلف اور غیر منقطع ‘ نیٹ ورکس ہٹائے جانے سے متعلق تفصیلات شیئر کیں۔

کمپنی نے کہا کہ اس نے ان نیٹ ورکس کی جانب سے بنائے گئے پیجز، اکاؤنٹس اور گروپس منظم غیر معتبر رویے اور اسپیمنگ کے حوالے سے فیس بک کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے بند کیے۔

سماجی روابط کی معروف ویب سائٹ فیس بک نے اعلان کیا کہ اس نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے 103 پیجز، گروپس اور اکاؤنٹس بند کردیے ہیں۔

اس حوالے سے فیس بک نے دعویٰ کیا کہ تمام اکاؤنٹس ’منظم غیر معتبر رویے‘ (coordinated inauthentic behaviour) کی بنیاد پر بند کیے گئے جبکہ کئی اکاؤنٹس پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مبینہ ملازمین منسلک ہونے کا بھی دعویٰ کیا گیا۔

ڈان نے فیس بک کے اس دعوے پر آئی ایس پی آر سے بھی مؤقف کے لیے رابطہ کیا۔

فیس بک کی سائبر سیکیورٹی پالیسی کے سربراہ ناتھانئیل گلائیکر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’ آج ہم نے منظم غیر معتبر رویے کی وجہ سے پاکستان سے تعلق رکھنے والے فیس بک اور انسٹا گرام کے 103 پیجز، گروپس اور اکاؤنٹس بند کردیے‘۔

بیان میں مزید بتایا گیا کہ ’ تاہم اس سرگرمی سے وابستہ افراد نے اپنی شناخت چھپانے کی کوشش کی مگر ہماری تحقیق سے معلوم ہوا کہ ان اکاؤنٹس کو چلانے والے آئی ایس پی آر کے ملازم تھے‘۔

ناتھانئیل گلائیکر نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ اکاؤنٹس اس لیے ختم کیے گیے کیونکہ جعلی اکاؤنٹس کا ایک نیٹ ورک موجود ہے، جسے وہ اپنی شناخت چھپانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ان پیجز کو آزاد ظاہر کیا جاتا تھا جبکہ در حقیقت ایسا نہیں ہے‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ فیس بک اس حوالے سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان سرگرمیوں کو ادارے کی ہدایت پر کیا گیا یا ملازمین بذات خود ایسا کررہے تھے۔

ناتھانئیل گلائیکر نے کہا کہ ’ ان سرگرمیوں میں متعدد ملازمین ملوث تھے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’فیس بک کو ملوث افراد کی شناخت سے متعلق ’مکمل اعتماد‘ ہے۔
’مواد نہیں رویے کا معاملہ ہے‘

ناتھانئیل گلائیکر نے واضح کیا کہ فیس بک نے پوسٹ کیے جانے والے مواد کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے رویے کی وجہ سے اکاؤنٹس ختم کیے۔

تحقیقات سے معلوم ہوا کہ پاکستان میں موجود مذکورہ نیٹ ورک، فیس بک اور انسٹاگرام کے 24 پیجز، 57 فیس بک اکاؤنٹس، 7 فیس بک گروپ اور 15 انسٹاگرام اکاؤنٹس تک پھیلا ہوا تھا۔

کمپنی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’ان سرگرمیوں میں ملوث افراد جعلی اکاؤنٹس کو ملٹری فین پیجز، پاکستانی دلچسپی سے متعلق پیجز، کشمیر کمیونٹی پیجز اور نیوز پیجز کے لیے استعمال کرتے تھے‘۔

بیان میں یہ بھی کہنا تھا کہ وہ بھارتی حکومت، سیاسی رہنماؤں اور فوج سے متعلق خبریں بھی پوسٹ کرتے تھے‘۔

فیس بک کی جانب سے ان پیجز کی تفصیلات بھی شیئر کی گئیں:

فالوورز : تقریبا 28 لاکھ افراد نے ان میں سے ایک یا اس سے زائد پیجز کو لائیک کیا ہوا تھا، 4 ہزار 7 سو افراد ان میں سے کم از کم ایک گروپ کا حصہ تھے اور تقریباً ایک ہزار 50 اکاؤنٹس ان انسٹاگرام اکاؤنٹس کو فالو کررہے تھے۔

اشتہارات: فیس بک پر اشتہارات کے لیے امریکی ڈالرز اور پاکستان روپے میں رقم خرچ کی گئی خرچ کی گئی، جس کا تخمینہ 1100امریکی ڈالرز لگایا گیا، پہلا اشتہار مئی 2015 اور حالیہ اشتہار دسمبر 2018 میں چلا۔

فیس بک کی جانب سے ہٹائے جانے والے پیجز میں پاکستان سائبر ڈیفنس، کشمیر نیوز، گلگت بلتستان ٹائمز، کشمیر فار کشمیریز، پینٹرز پلیٹ، پاکستان آرمی-دی بیسٹ شامل تھے۔

ان پیجز کے ناموں سے متعلق تفصیلات اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک کے ڈیجیٹل فرانزک ریسرچ (ڈی ایف آر) لیب کی جانب سے شیئر کی گئیں، جنہوں نے فیس بک کی جانب سے پاکستانی نیٹ کے ہٹائے گئے مواد کا جائزہ لیا تھا۔

ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے ناتھانئیل گلائیکر نے نیٹ ورک سے وابستہ افراد کی تعداد نہیں بتائی، نہ ہی انہوں نے ان افراد اور بلاک کیے گیے اکاؤنٹس کے درمیان تعلق کو کسی طرح واضح کیا۔

ناتھانئیل گلائیکر نے کہا کہ ’سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے ہم اس حوالے سے زیادہ نہیں بتاسکتے کہ ہم یہ لنکس کیسے بناتے ہیں کیونکہ مانیٹرنگ ایک جاری رہنے والی سرگرمی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ لنک بنانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی ان میں سے جعلی اکاؤنٹ چلا رہا ہے اور اس کے بعد وہ اپنا ذاتی اکاؤنٹ لاگ ان کرتا ہے۔

گلائیکر نے کہا کہ ’ ہم عام طور میں ان سرگرمیوں میں ملوث افراد کو مطلع نہیں کرتے لیکن ہم ان ممالک میں موجود پالیسی سازوں سے رابطے میں ہیں۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا انہوں نے پاکستان میں کسی سے رابطہ کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں وزیراعظم آفس اور ’ سوشل میڈیا ایڈوائزر ‘ سے رابطہ کیا تھا‘۔
(بشکریہ ڈان ڈاٹ کام)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں