ابومحمد مصعب۔۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ کی بات ہے، برٹش ریلوے کی آمدن میں تشویشناک حد تک کمی واقع ہوگئی۔ شاید مسافروں نے، محکمہ ریلوے کی کارکردگی دیکھتے ہوئے، ریل کے بجائے، متبادل ذرائعِ سفر اختیار کر لیے تھے۔ اس چیز نے ریلوے ذمہ داران کو پریشان کر دیا اور وہ سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ کافی غوروفکر کے بعد طے ہوا کہ ادارے کی آمدن بڑھانے کے لیے کسی بڑی ایڈورٹائزنگ کمپنی کی خدمات حاصل کی جائیں۔
فیصلے کے مطابق، ملک کی ایک معروف ایڈورٹائزنگ کمپنی سے رابطہ کیا گیا۔ میٹنگ کا وقت طے ہوا۔ ریلوے کے کچھ اعلیٰ عہدیداران، مقررہ وقت پر، میٹنگ کے لیے ایڈورٹائزنگ کمپنی کے صدر دفتر پہنچ گئے لیکن وہاں ان کا استقبال ایک اکھڑ مزاج اور ترش رو ریسپشنسٹ نے کیا، جو انہیں طویل انتظار میں رکھ کر، اپنے معمول کے کام نمٹاتی رہی۔ مہمانوں کو ریسیپشنسٹ کا برتاؤ بہت برا لگا۔ وہ چیں بہ جبیں بھی ہوتے رہے لیکن ریسپشنسٹ نے ان کو زیادہ گھاس نہیں ڈالی، اور وہ مسلسل اپنے کاموں میں لگی رہی۔
کافی دیر کے بعد، ایک دوسرا ’’نمونہ‘‘ دفتر سے نمودار ہوا جو مہمانوں کو کانفرنس ہال میں لے کر گیا۔ کانفرنس ہال کی حالت ایسی تھی جیسے کئی ہفتوں سے اس میں نہ کوئی آیا ہو اور نہ اس کی صفائی کی گئی ہو۔ ہر طرف گندگی پھیلی ہوئی تھی۔ بڑے مرکزی ٹیبل پر ڈبوں اور پیکٹوں میں بچے ہوئے کھانے پڑے تھے، جن سے عجیب سی بدبو اٹھ رہی تھی۔ کرسیاں، ٹیبل اور دیواریں گرد آلود تھیں۔ وہاں روشنی کا بھی ٹھیک سے انتظام نہیں تھا۔
یہ سب دیکھ کر، ریلوے افسران کو بہت شاک پہنچا۔ وہ غصے کے مارے اپنے ہاتھ چبانے لگے۔ انہوں نے کئی بار، وہاں خدمت پر مامور شخص کو کمرے کی حالت درست کرنے کا کہا، لیکن اس نے بھی افسران کو کوئی خاص لفٹ نہیں کروائی اور باربار اپنے کاموں سے اندر باہر آتا اور جاتا رہا۔
یہ سب دیکھ کر، مہمانوں کا پارہ چڑھ گیا۔ وہ شدید غصے کی حالت میں اپنی نشستوں سے اٹھ کر واپس جانے لگے۔ تب کمرے میں، ایڈورٹائزنگ کمپنی کا ایک خوش لباس ذمہ دار داخل ہوا۔ جس نے مہمانوں کا یہ کہہ کر استقبال کیا:
“جناب والا، آپ ہرگز، حیران، پریشان اور دل گرفتہ مت ہوئیے گا کیوں کہ یہ ہماری کمپنی کا، اپنے مہمانوں کو ویلکم کرنے کا عام انداز نہیں ہے بلکہ آپ کے لیے ہم نے ایسے استقبال کا، خاص طور پر اہتمام کیا تھا، تاکہ آپ کو بتا سکیں کہ آپ کے عملے کا، عام افراد اور مسافروں کے ساتھ رویہ کیسا ہوتا ہے”۔
“جناب اعلیٰ، محض ایڈورٹائزمنٹ سے آپ کا مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ آپ کے عملے کے افراد کو، اپنے کسٹمرز کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے اور برتاؤ کو تبدیل کرنا ہوگا، آپ کو، مسافروں کو دی جانی والی سہولیات کو بہتر بنانا ہوگا، تب ہی جا کر کوئی اشتہاری مہم، آپ کی توقع کے مطابق نتائج دے سکے گی۔”
اس کے بعد میٹنگ ہوئی، کمپنی کو اشتہاری مہم کا ٹھیکہ ملا۔ مہم لانچ ہوئی اور برٹش ریلوے دوبارہ اسی مقام پر آ گئی جہاں پہلے کبھی تھی۔
یہ تو تھا برٹش ریلوے کا قصہ۔
دبئی میں، ایک جگہ ایک ریسٹورنٹ ہے۔ اس کے مالک کا نام عبدالخالق تھا۔ چکوال سے تھے۔ اب انتقال ہو چکا ہے۔ اللہ انہیں جنت نصیب کرے۔ بڑے نرم خو اور شریں زبان آدمی تھے۔ انہوں نے اپنے ریسٹورنٹ میں ایک بورڈ آویزاں کیا ہوا تھا، جس پر اردو زبان میں کچھ اس طرح کے فقرے لکھے ہوئے تھے:
گاہک اللہ کی نعمت ہوتا ہے
گاہک کی قدر کرو
گاہک ہم کو پیسے دیتا ہے، لیتا نہیں۔
ہمارا گاہک پر کوئی احسان نہیں، بلکہ گاہک کا ہم پر احسان ہے۔
گاہک ہماری تنخواہیں، بجلی کا بل اور دکان کا کرایہ دیتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب انہوں نے اپنے عملہ کی تربیت کے لیے لکھ رکھا تھا تاکہ مبادا کبھی بیروں اور ویٹرز کے دماغ میں تکبر اور احسان جتانے کا خیال نہ آ جائے۔
کاروبار میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ جب کاروبار اچھا چل رہا ہو، تو ہم گاہک کو لفٹ نہیں کراتے، اس کے اطمینان کے لیے اقدامات نہیں کرتے اور اسے کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے لیکن جیسے ہی بزنس تنزلی کی طرف جاتا ہے یا گاہک چھوڑ جاتا ہے تو پھر ہم اسے دوبارہ پانے کی جستجو میں لگ جاتے ہیں۔
آج کے جدید دور میں، جہاں عوام کے ووٹوں سے حکومتیں معرضِ وجود میں آتی ہیں، اگر حکمران اپنے عوام کو رعیت نہ سہی، ’گاہک‘ اور ’کسٹمر‘ ہی سمجھ لیں تو خدمات کا معیار کہیں سے کہیں پہنچ جائے۔