مہربان ماں کو حکمرانی ملی تو ریاست ماں جیسی بن گئی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نوشین نقوی۔۔۔۔۔۔۔۔
شکر ہے نیوزی لینڈ کا سانحہ بہ خیریت نبٹ گیا۔۔۔تمام شہدا کو سپرد خاک کردیا گیا،دہشت گرد قاتل قانون کی گرفت میں ہے اور خدا کا شکر ہے نیوزی لینڈ جیسے کافر ملک میں ایسا قانون رائج ہےکہ برسوں کیس چلنے کے بعد نا مکمل ثبوت اورمناسب گواہ نہ ہونے کی بنیاد پر قاتل کے باعزت بری ہونے کے چانسز زیرو ہیں۔ کوئی ایسا قانون بھی نہیں ہے کہ قاتل مقتولین کے ساتھ لین دین طے کر کے قتل سے چھٹکارا پالے گااور باقی زندگی سکون وعزت سے گزارے گا۔ ہتھیاروں سے متعلق قانون بھی کیوی پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت سے پاس کر لیا گیا۔غرض ہر وہ مشکل آسان کوشش کی جارہی ہے جس سے امن کا حصول ممکن بنایا جائے۔

پوری دنیا نے دیکھا کہ کیسے نیوزی لینڈ کے باسیوں نے اپنی حکمران کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی سر زمین کو مذہب کے نام پر استعمال ہونے کی مذمت کی ۔۔جتنی ویڈیوز سامنے آئیں اس میں نیوزی لینڈ کے باسی شرمندہ نظر آئے کہ کیسے ان کے گھر والے اس سانحے کا شکار ہوئے۔خود نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن نے سیاہ لباس پہنے ،ہاتھ باندھ کر شرمندہ ہوتے ہوئے مسلمانوں سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہا’’ہم آپ کی حفاظت نہیں کر سکے‘‘۔

یقیناًہمیں نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم کی بے سبب تعریف نہیں کرنی چاہئے لیکن ایک ایسے دور میں جب دنیا بھر کے مرد حکمران غیر ذمہ داراور جابر رویوں کے ساتھ غیر ذمہ دار نسلوں کی تربیت کر رہے ہیں ایسے میں دل بڑا کر کے ایک سمجھ دار حکمران کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئے کیونکہ جب ایک مہربان ماں حکمران ہو، تو ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔۔

دنیا کو اس وقت جس بد امنی کا سامنا ہے اسے حقیقی امن کی کوششوں سے ہی ختم کیا جاسکتاہے۔۔۔ اینٹ کا جواب پتھر،بڑھکیں،جھگڑے اور فساددنیا کے امن کے لئے خطرہ بن چکے ہیں اور تیزی سے دنیا کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں ایسے میں کسی سیاستدان کا ذمہ دار رویہ سامنے آنا حیران کن لگتا ہے۔

دنیا بھر میں اقلیتیں اس وقت جس اذیت سے گزر رہی ہیں اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔ایسے میں نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم جیسنڈا کیٹ لاریل آرڈن نے دنیا بھر کی خواتین کو جینے کی نئی راہ دکھائی ہے کہ یہ عورتیں اور ان کے ذمہ دارانہ رویے دنیا میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔

ہم نے بطور پاکستانی جیسنڈا کو اس قدر سراہا کہ انہیں مسلمان ہونے کا مشورہ دے ڈالا۔۔۔خدارا! زیادہ نہ سہی کچھ ذمہ داری تو ہماری بھی بنتی ہے۔ہم وہ قوم ہیں جس کا ہر ایک فرقہ دوسرے کے قتل کو ثواب قرار دیتا ہے ،جہاں اقلیتیں شور مچاتی ہیں تو ان کی کوئی نہیں سنتا،جہاں بہاولپور کا ایک ہونق سٹوڈنٹ مذہب کی چادر اوڑھ کرایک پروفیسر کو قتل کر کے چھری لہراتا ہوا کہتا ہے’’میں نے جو کیا ٹھیک کیا،اور اسی علاقے سے چنا گیا صوبے کاوزیر اعلیٰ مذمت کرنے کی جرات نہیں کرتا کہ کہیں کوئی خنجر مجھے بھی چیرتا نہ گزر جائے۔۔۔

جس ملک کا ایک وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کہتا ہے تمام سیکولر اور لبرل اس ملک سے بھاگ جائیں۔۔

جہاں ریلوے منسٹر ببانگ دہل کہتا ہے "ہاں! ہم مسلمان ہیں، جہاد ہم پر فرض ہے اور ہم ایسی تنظیموں کی سرپرستی کرتے رہیں گے جوکافروں کا خاتمہ کریں۔۔جہاں دنیا کا سب سے ماڈرن وزیراعظم براجمان ہے جس کو ایک مدت تک ’پلے بوائے‘ کا خطاب ملا رہا اور وہ اس خطاب سے ملے مزے لوٹتا رہا لیکن اسے الیکشن جیتنے کے لئے مذہبی چولا اوڑھنا پڑتا ہے۔۔

جہاں کرسچن جوڑا بھٹے میں جلا دیا جاتا ہے،جہاں مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہیں جلا کر ہم فاتحین کی طرح تلواریں لہراتے باہر آ کر جشن مناتے ہیں۔۔۔جہاں ’فورسڈ کنورژن‘ نام کا اژدہا کئی غریب مظلوم ماں باپ سے ان کی بیٹیاں چھینتا ہے لیکن وہیں غیرت مند نوجوان اپنی بہن کو پسند کی شادی کرنے پر قتل کردیتا ہے ۔۔

جانے کون لوگ ہیں جو کسی کو انسان نہیں رہنے دیتے۔۔اچھا عمل دیکھیں تو فوراً آواز آتی ہے اس کا عمل مسلمانوں جیسا ہے اس کو مسلمان ہو جانا چاہئے۔۔۔اوہ ! بھئی باقی چھوڑودنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمان میں سے صرف پانچ فیصد عملی طور پر ویسے مسلمان بن جائیں جیسے انہیں جیسنڈا آرڈن میں دکھتا ہے تو دنیا بڑی حسین ہو جائے۔

جیسنڈا نے ایک عورت حکمران ہونے کی ایسی روایت قائم کی ہے جس کی پیروی سارے حکمران کرنے لگیں تو جنگیں اور ان کے اثرات انسانوں کو نگلنا چھوڑ دیں۔۔۔آئیے! انسانیت کے خلاف ہونے والے خون خرابے،بد امنی،جہالت ،غربت اورنفرت کے خلاف جہاد کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔۔۔کیونکہ یہ وہ جہاد ہے جو واقعی ہم پر فرض ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں