دردِ زہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مترجم: مدثر محمود سالار۔۔۔۔۔۔۔
میں زنانہ امراض کی طبیبہ کے مطب سے نکل کر گھر کی طرف ایسے چل رہی تھی جیسے میں خوشی و سرور سے ہواؤں میں اڑ رہی ہوں۔ میرا من چاہ رہا تھا چیخ چیخ کر اعلان کروں کہ میں حاملہ ہوں۔

چار سال کے طویل عرصہ بعد کئی طرح کے علاج معالجہ،پریشانی اور شوق اور خواہش کے بعد وہ بچہ میرے جسم میں تھا جس کا انتظار کئی برس ہم دونوں میاں بیوی نے کیا۔
میں آخرکار حاملہ ہوگئی ہوں، ہماری تمنا پوری ہونے والی ہے۔ ہم والدین بننے والے ہیں۔
آہا میرے شوہر کی خوشی تو دیدنی ہوگی، میرا بس نہیں چل رہا کہ اڑ کر گھر پہنچوں اور شوہر کو یہ زبردست خوشخبری سناؤں۔

میرا پاؤں راستے پر پڑے ایک پتھر پر پڑا اور میں لڑکھڑا کر گرتے گرتے بچی، میں نے اللہ کی پناہ مانگی اور لاشعوری طور پر جلدی سے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر خود کلامی کرتے ہوئے کہا !!!!
اللہ خیر کرے گا،ہمارے بچے کو کچھ نہیں ہوگا۔

راستے میں مجھے اپنی ایک سہیلی مل گئی اور میں نے گرم جوشی سے اسے سلام کیا۔ میں خوشی سے بے حال ہورہی تھی اور اپنی سہیلی کو آج کی خوش کن خبر سنانے لگی تھی کہ اس کے چہرے پر حزن و ملال نے مجھے دفعتاً روک لیا۔ میں نے اپنی خوشی کو پس پشت ڈال کر پوچھا کہ کیا ہوا میری عزیزہ ؟؟

اس نے جو خبر سنائی اس سے میرا دل بیٹھ گیا اور میری خوشی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔
ہماری بہت اچھی ایک سہیلی کی دوران زچگی وفات ہوگئی تھی، ہم سب کتنے شوق سے اس کے بچے کی ولادت کا کئی ماہ سے انتظار کررہے تھے۔

اس حقیقی صدمے سے ہم سب مضطرب ہوئے اور میری خوشی بھی زائل ہوگئی۔ خوشی کا انتقال غم کی ولادت کے ساتھ اچانک ہوجاتا ہے۔

کئی روز گزر گئے مجھ میں ہمت پیدا نہ ہوئی کہ اپنی مرحومہ سہیلی کے خاوند کے پاس جاکر تعزیت کرسکوں۔ میرے شوہر مجھے بار بار تسلی دیتے رہتے کہ پریشان نہ ہو، تمہاری پریشانی کا اثر ہونے والے بچے پر پڑرہاہے۔
خدارا جو زندہ ہے اس کا خیال کرنا زیادہ اہم ہے، مرحومہ سہیلی کا غم اپنے دل پر مت غالب آنے دو۔

وہ انتقال کرگئی ، اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔ اس پیاری سہیلی کا یوں وداع ہونا مجھے بہت تکلیف دہ لگ رہا تھا،وہ مجھے ہر وقت یاد آتی رہتی۔ میں عجیب سی کیفیت کا شکار ہوگئی اور کسی روز مرہ کے کام میں دل نہ لگتا۔ میں زندہ اور مردہ دو حالتوں میں اٹکی ہوئی تھی۔
اس کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے ہی میں اس سے ملنے گئی اور اس نے مجھے کتنے شوق اور محبت سے کہا کہ مجھے زچگی سے ڈر لگ رہا ہے، کیا تم میرے ساتھ رہو گی جب بچے کی ولادت کا وقت ہوگا؟

میں نے اسے تسلی دی اور بچے کی پیدائش کے بعد کے مراحل کے بارے گپ شپ کی۔ مگر وہ خود اس دنیا سے انتقال کرگئی۔ وہ چلی گئی اور مجھے زچگی کے اندیشوں میں چھوڑ گئی۔
میں ایک دن ہمت کرکے اس کے گھر چلی گئی تاکہ اس کے خاوند اور اہل خانہ سے تعزیت کرلوں۔

میں اپنے اعصاب کو مضبوط کرتے ہوئے اس کے کمرے میں داخل ہوئی تو اس کی تصویر سامنے دیوار پر لگی ہوئی تھی۔ وہ تصویر میں مسکرا رہی تھی، ایسے لگ رہا تھا کہ وہ مسکرا کر میرا استقبال کررہی ہے۔ اس کے ہونٹ تو نہیں ہلے مگر میں اس کے استقبالیہ الفاظ سن رہی تھی، میرے کانوں میں اس کی آواز گونج رہی تھی۔

یہاں تک کہ مجھے ایسے لگا کہ وہ کہہ رہی ہو کہ تمہارے پیٹ میں ایک لڑکی ہے اور میں نے اپنی زندگی اس لڑکی کو ہدیہ کردی ہے، میری اتنی گزارش ہے کہ تم اس لڑکی کا نام میرے نام پر رکھنا۔

مجھے اس احساس نے کئی لمحوں تک اپنی گرفت میں لیے رکھا، میں چونک کر اس واہمے کو جھٹکنا چاہ رہی تھی مگر وہ جیسے میرے سامنے آکھڑی ہوئی ہو۔
مجھے ایسے لگا کہ میرے پیٹ میں حرکت ہوئی ہے اور میں خود سے گویا ہوئی !!!!
وہ میرے اندر موجود ہے، مجھے اس سے شدید محبت تھی اس لیے وہ میرے اندر میرے خون میں ٹھہر گئی ہے۔

میں نے خود سے سوال کیا کہ ہزاروں عورتوں میں سے میری سہیلی ہی زچگی کے دوران کیوں وفات پاگئی؟؟ اور اور وہی کیوں فوت ہوئی؟ میں بھی تو زچگی سے مرسکتی ہوں۔ وہ مجھ سے مختلف تھی کیا؟

میرے اندر کئی طرح کے اندیشے پنپنے لگے، دل تکلیف سے تڑپ اٹھا۔ میرے بچے کو میری محبت اور توجہ چاہئے،میں اس کے لیے زندہ رہنا چاہتی ہوں، اس کی پرورش کرنا چاہتی ہوں۔ کیا میں اس کو اپنی آنکھوں سے بڑا ہوتا دیکھ سکوں گی یا میرا نصیب بھی میری سہیلی کی طرح ہوگا؟

وہ اپنا بچہ دیکھے بغیر دنیا سے رخصت ہوگئی اسے بچے کی تربیت کرنے کا موقع نہی ملا۔
مجھے اللہ پر کامل ایمان ہے اور میں جانتی ہوں کہ موت کا وقت تو ہر انسان کے لیے مقرر کردیا گیا ہے،مگر زچگی اور موت کا چولی دامن کا ساتھ لگ رہا۔

حتی کہ میں طبیبہ کے پاس ماہانہ معائنہ کے لیے گئی تو طبیبہ نے بھی کہا کہ سب کچھ بہترین ہے کوئی پریشانی والی بات نہیں، مجھے یاد آیا کہ میری سہیلی کو بھی طبیبہ نے یہی کہا تھا۔ جیسے جیسے ولادت کے دن قریب آرہے تھے مجھے لگ رہا تھا میری زندگی کے بس یہی تھوڑے سے دن رہ گئے ہیں جو روز بروز کم ہورہے ہیں۔

میں نے جب اس مرحومہ کے شوہر کی طرف دیکھا تو مجھے اس کے چہرے پر گہرا دکھ اور اس بات کی حسرت نظر آئی کہ اس کا بیٹا ماں کے بغیر پرورش پارہا۔

میں نے جب اس معصوم بچے کو غور سے دیکھا تو مجھے تصور میں اپنا بچہ اس مسکین بن ماں کے بچے کی جگہ نظر آیا اور ساتھ ہی اپنے شوہر کا خیالی چہرہ غمگین اور دلبرداشتہ نظر آیا۔ شیطانی وسوسے مجھے اپنی گرفت میں جکڑتے جارہے تھے اور میں ان سے چھٹکارا پانے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔

میں جب جب ان برے خیالوں سے دور ہوتی تو یہ وسوسے دوبارہ مجھے گھیر لیتے۔
میں ان وسوسوں کے متعلق اپنی والدہ اور اپنے شوہر سے بات نہیں کرپارہی تھی، میں خود ہی اس خوف اور دہشت سے مقابلہ کررہی تھی۔

بچے کی ولادت سے ایک ہفتہ قبل میں نے گھر کی اچھی طرح صفائی کی اور بچے کے کپڑے اور اس کی ضروریات اور شوہر کی ضروری اشیاء ترتیب سے رکھیں اور ہر شے منظم طریقے سے کردی گویا میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہورہی ہوں اور موت کا فرشتہ بس اب میرے ساتھ ساتھ ہی ہے۔

آخرکار وہ وقت آ پہنچا اور مجھے دردِ زہ شروع ہوگیا، عجیب بات یہ ہوئی کہ ادھر درد شروع ہوا اُدھر میرا خوف ختم ہوگیا۔ میری مرحومہ سہیلی میرے خیالوں میں نقش تھی۔ میں اپنے اندر اسے موجود محسوس کررہی تھی۔ میں نے اسے کہا برائے مہربانی یہاں سے چلی جاؤ ،،

میں اپنے بچے کے لیے زندہ رہوں گی۔ مجھے ایسے لگا اُس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنے ساتھ کسی غیبی دنیا میں لے جارہی ہو، میرے دل کی دھڑکن تیز ہورہی تھی اور درد ختم ہورہا تھا۔

میں نہیں چاہتی تھی کہ درد دوبارہ ہو۔ پھر میری حالت اچانک بگڑنے لگی اور طبیبہ نے فوراً اپنے معاونین کو جراحی کے لیے تیار ہونے کا حکم دیا۔

جب مجھے عمل جراح کے لیے مخصوص بستر پر لٹایا گیا تو میں نے شوہر کا ہاتھ تھام لیا۔ میں اسے الوداع کہنا چاہتی تھی، میں بتانا چاہتی تھی کہ مجھ پر کیا گزر رہی ہے، میں اسے کہنا چاہتی تھی کہ میرا انتظار مت کرنا، میری بیٹی کا خیال رکھنا اور اس کا نام میری سہیلی کے نام پر رکھنا۔ مگر میں کچھ نہیں کہہ سکی۔

میں بے حس اس کا ہاتھ تھامے اس کی آنکھوں میں موجود درد کو پڑھنے کی کوشش کررہی تھی۔
میں نے اپنی والدہ کو آنسو پوچھتے دیکھا وہ میرا ہاتھ سہلا رہی تھیں اور میں بے حس و بے حرکت پڑی تھی۔ جانے کب میں اوہام کی گہری وادی میں چلی گئی اور احساس بھی نہیں ہوا کہ کب طبیب نے مجھے بیہوش کرنے کا ٹیکہ لگایا۔

میں آہستہ آہستہ ہوش میں آرہی تھی، میں جاگی تو مجھے یقین نہ آیا کہ میں زندہ ہوں۔ میں نے آنکھیں کھولیں پھر بند کیں، ایسے لگا میں ابھی پیدا ہوئی ہوں۔ میری یادداشت آہستہ آہستہ واپس آنے لگی، میں زندہ ہوں، مجھے موت نہیں آئی۔ میں نے پھر آنکھیں کھولیں، سانس لیا، میں نے دیکھا اوہ یہ تو میری والدہ ہیں۔

ہاں میں انہیں جانتی ہوں۔۔۔۔۔ میں مسکرائی۔۔۔۔
یاد آیا کہ ایسے مسکراتے ہیں اور اور مسکراہٹ تو خوشی کی علامت ہے۔
میں فوت نہیں ہوئی،،، میں یہاں زندہ موجود ہوں۔

میری آنکھیں پھر بند ہورہی تھیں مگراب میں خوشی کی کیفیت میں سونے جارہی تھی۔۔میں ناقابل بیان خوشی محسوس کررہی تھی۔
میں دیر تک غنودگی میں رہی یہاں تک کہ میں نےاپنے شوہر کی آواز پر آنکھ کھولی۔
اللہ کا شکر ہے کہ تم بخیرو عافیت ہو۔

میں نے بمشکل آنکھ کھول کر اس کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر عمر بھر کی مسرت جھلک رہی تھی۔
اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر سہلایا، مجھے بہت اچھا لگا اور مجھے مستقبل بہترین اور پرمسرت نظر آنے لگا۔
میں نے بےہوشی کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے خوشی سے پوچھا!!!!
میری بیٹی خوبصورت ہے؟ اس کا نام۔۔۔۔

میرے شوہر نے فورا میری بات کاٹ کرکہا!!!
تمہیں کس نے کہہ دیا کہ تمہارے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے؟؟؟
وہ لڑکا ہے، اپنے باپ کی طرح وجیہ ، وہ باپ کا وارث ہے، تم اُس کا کیا نام رکھنا چاہتی ہو؟؟

میں ڈھے سی گئی، میں کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی، مجھ میں مسکرانے کی سکت بھی نہ رہی، میں پھر غنودگی میں چلی گئی۔ اوہام کا پہاڑ مجھ پر گرتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ میں گہری پرلطف نیند سو گئی۔
میں نے سنا میرے شوہر نرس کو بلارہے کہ جلدی آو دیکھو اسے کیا ہوا؟
وہ کہہ رہی تھی اسے سونے دو ، بے ہوشی کی دوا کے اثرات ہیں کوئی پریشانی کی بات نہیں۔

میں خواب میں اپنی سہیلی کو دیکھ رہی تھی، مگر اس بار وہ خوش خوش لگ رہی تھی اور اس کے ہاتھوں میں گلاب کے پھولوں کا گلدستہ تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے مجھے گلدستہ دیا۔
میں نے اس سے معذرت کرنا چاہی، مجھے اس فضا میں ایک لباس نظر آیا جس پر میری تصویر بنی ہوئی تھی،

میں اس لباس کی طرف لپکی مگر میری سہیلی نے ہاتھ سے جھٹک کر وہ لباس دور کردیا۔
پیاری دوست مجھے معاف کردو۔۔۔ میرے پاس آؤ۔۔ اپنا ہاتھ مجھے دو۔۔
مگر میری سہیلی مجھ سے دور رہی۔ وہ مجھ سے دور ہوتی جارہی تھی۔۔۔۔میں نے اسے پکڑنا چاہا مگر میرے پاؤں زمین میں گڑ گئے۔ میں نے ہاتھ بلند کرکے اسے پکڑنا چاہا،،،

وہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے صاف شفاف بادلوں میں گم ہوگئی۔ میں نے آنکھ کھولی، مجھے اپنے اندر نئی روح محسوس ہوئی۔
میرے اردگرد سب اہلخانہ کھڑے ہوئے مسکرا رہے تھے۔
میں مسکرائی۔

میں نے اپنے بچے کو دیکھنے کی خواہش کی۔۔۔
میں نے اسے اپنی بانہوں میں لیا اور گزشتہ ایام کا تکلیف دہ منظر ذہن سے محو کرتے ہوئے اپنے بیٹے کی آنکھوں میں روشن مستقبل دیکھنے لگی۔۔۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں