مدثر محمود سالار۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسم بہار کا آغاز ہے، سردیوں کی آخری برفباری گزشتہ اتوار کو ہوئی۔ برف کو آسمان سے روئی کے باریک روئیں کی طرح اترتا دیکھ کر دل اداس ہوا۔ پہلے چند منٹ تو شدید غصہ اور چڑچڑا پن طاری رہا کہ موسم نے بھی ڈرامہ بازی شروع کردی ہے،ایک ہفتہ گرمی اور دوسرے ہفتے برفباری والا غیر رومانوی سین چل رہا ہے۔
پھر برفباری میں جاکر کھڑا ہوگیا اور برف کو خود میں جذب کرنے لگا۔ پہلی برفباری ہوتی ہے تو موسم کے ساتھ ساتھ دل اور دماغ کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ روز مرہ کے معمولات بدل جاتے ہیں۔ برفباری میں سکون اور خاموشی آسمان سے نازل ہورہی ہوتی ہے اور رات کا منظر تو بہت مسحور کن ہوجاتا ہے۔ آسمان بالکل سفید ایسے لگتا ہے رات نہیں ہوئی بلکہ شام کا اداس منظر سورج کے لیے سسک رہا ہے۔
صبح نہار منہ گھر سے باہر نکل کر ہر طرف خاموشی محسوس کرنا اور سفید برف کی چادر ہر شے پر بچھی ہوئی دیکھنا بھی پرسکون نظارہ ہوتا ہے۔
گو گھر کے سامنے سے برف صاف کرنا اضافی مشقت ہوتی ہے،بالخصوص جب برف جم کر شیشے کی طرح ہوجائے تو پھسل کر گرنے کا خدشہ بھی ہروقت ذہن کے کسی کونے کھدرے میں دبک کے بیٹھا ہوتا ہے۔
برفباری کے بعد ہوا چلنے سے ٹھنڈ بڑھنے لگتی ہے اور درجہ حرارت گرنے لگتا ہے۔ ہوا ٹھنڈی تیز دھار چھری کی مانند جسم کے غیرپوشیدہ حصوں پر لگ رہی ہو تو برف کے متعلق سارے رومانوی اور شاعرانہ احساسات برف میں دفن ہوجاتے ہیں۔
جب سرکاری ادارے کی طرف سے فراسٹنگ ( تیس منٹ یا اس سے بھی کم وقت میں ہاتھ پاؤں ننگے ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہوجانا)کی وارننگ کے میسج آتے ہیں تو سوچیں ہزاروں میل کا سفر طے کرتی ہوئی ان معصوم بچوں کا درد محسوس کرنے کی کوشش کرتی ہیں جو شام میں سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں اور کشمیر میں بے یارو مددگار انسان سردی میں کیسے برداشت کرتے ہیں۔
اداسی برفباری کے ساتھ طبعیت پر چھاجاتی ہے، بے گھر افراد سردی میں کیسے گزارا کرتے ہیں یہ سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
برفباری کسی کے لیے باعثِ اذیت بن جاتی ہے اور کسی کے لیے راحت۔ راحت اس لیے کہ برفباری میں جو حفاظتی سامان ضرورت ہوتا ہے اس کو فروخت کرنے والے تو خوب کمائی کرتے ہیں۔
یہ آخری برفباری جاتے جاتے کئی پیغام خاموشی سے چھوڑ گئی ہے۔
ایک پیغام تو یہ بھی ہے کہ ہر موسم اپنی مدت پوری ہونے پر رخصت ہونے پر مجبور ہے چاہے وہ ماحولیاتی موسم ہو یا دل کا موسم ہو۔
اور ہر مشقت اور سختی کے بعد بہار آتی ہے۔ مشقت کا موسم جیسا بھی ہو اسے بہار کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ یہ برفباری اور سردی ہم میں سے کئی افراد کو اگلے سال دیکھنا نصیب نہ ہو۔
لازم نہیں کہ صرف مرنے والے ہی موسموں سے محروم ہوجاتے ہیں بلکہ ترک سکونت اور ہجرت بھی انسانوں کو کئی موسموں سے محروم کردیتی ہے۔
برفباری نے جاتے جاتے یہ پیغام بھی دیا کہ
خود پر جمود طاری نہ کرو ، اپنا آپ بدلو، اپنے انداز بدلو ورنہ گرمیِ حیات تمہیں برف کی طرح پگھلا دے گی۔ تم بخارات بن کر معدوم ہوجاؤ گے۔
پستی کا تصور رہنے دے، رفعت کی تمنا پیدا کر
تو شمس و قمر سے آنکھ ملا ، ماحول تقاضا کرتا ہے