لوگ کیا کہیں گے؟؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ہدایت اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اپنے سے متعلقہ لوگوں کو مد نظر رکھ کر کام کرتا ہے اور ان کے تجربے سے فیض یاب ہونے کی کوشش کرتا ہے مگر یہ مفروضہ ایک حد تک درست بھی ہےلیکن اس معاشرے کا بڑا المیہ ہے کہ یہی لوگ اس کیلئے رکاوٹ بن جاتے ہیں۔

اپنی ناکامیوں کی کہانیاں سناسنا کر دوسرے کو برگشتہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ چونکہ وہ خود نہیں کرپائے تھے لہذا اب ان کے بعد کوئی بھی یہ کام نہیں کرسکتا۔

ایک بہت بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ
بہت سارے با صلاحیت لوگ اپنی صلاحیتوں کا تین چوتھائی حصہ یہ کہہ کر ضائع کرتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟

یہ ایک ایسی بات ہے جو %80 لوگوں کو جدوجہد کرنے سے روکتی ہے اور ان کی ہمت کو شکستہ کرتی ہے۔

یہ صرف ایک طالب علم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ معاشرے کے ہر اس فرد کا مسئلہ ہے جو کچھ کرنا چاہتا ہے اور آگے بڑھنا چاھتاہے۔

اور چونکہ کامیابی کا تصور اس کے برعکس ہے کامیابی ان لوگوں کو ملتی ہے جو زمانے کی باتوں اور دوسروں کی ناکامیوں کو خاطر میں نہیں لاتے بلکہ اپنی جدوجہد کا زیرو سے آغاز کرتے ہیں اور پھر بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔

کامیاب افراد کی زندگی کا سب سے بڑا راز بھی یہی ہے کہ وہ منزل کا تہیہ کرلینے کے بعد کسی لالچ اور خوف کا شکار نہیں ہوئے اور نہ دوسروں کے تلخ تجربات سے گھبراگئے بلکہ انہوں نے پرکار کے نقطہ کی طرح ہر مسئلہ پر قدم رکھا اور پھر سفر کا آغاز کیا۔
اقبال رحمہ اللہ نے مسافر کے حوالے سے کہا تھا۔
کہ

آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو رہرو بھی تو رہبر بھی تو منزل بھی تو

اور دوسری جگہ بتایا کہ مسافر کو کن اوصاف سے متصف ہونا چاہیے
نگاہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

اور ہمیشہ وہی مسافر منزل کو پہنچ پاتا ہے جو راہ میں آنے والے ہر فرد سے الجھ کر اپنا وقت ضائع نہیں کرتا بلکہ چلتا جاتا ہے اسی طرح کوئی کامیاب شخص اس بات کو اہمیت نہیں دیتا لوگ کیا کہیں گے بلکہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق قالو سلاماٙٙ کہہ کر اپنی راہ لیتے ہیں۔

آج ھمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ قلمکار ،مقررین، اساتذہ،سیاست دان، صحافی حق بات لکھنے سے مقرر حق بات کہنے سے گبھراتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟؟ امیج خراب ہونے کا ڈر،باغی اور سرپھرا کہلائے جانے کا الزام اور نہ جانے کئی ایسے خیالات جن کے خوف سے حق بات کہی نہیں جاتی۔لیکن تاریخ یہی ہے کہ تاریخ ہمیشہ ان لوگوں کو محفوظ رکھتی ہے جنہوں نے لفافے لینے کی بجائے تاریخ کا بھرم رکھا او ر اپنے کردار کے ایسے ایسے چراغ روشن کیے کہ لوگ اش اش کر اٹھیں۔

کسی نے اس زندگی کا نقشہ کھینچ کر خوب کہا تھا
کہ
زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کے لیے
عہد کم ظرف کی ہر بات گوارا کرلیں

کیونکہ زندگی اتنی اہم تو نہیں کہ ہم صرف زندہ رہنے کے لیے جھوٹ،مکروفریب،دغابازی،خوشامدی اور پالش وغیرہ کا سہارا لیکر جھوٹ بکتے اور ضمیر کا سودا کرتے رہیں اس سے بہتر ہے کہ ہم حق بات کہہ کر امر ہوجائیں اور سہنرے حروف سے لکھے جائیں۔

خلاصہ یہ کہ عزم کریں اور اٹھ جائیں یقین جانیں معاشرہ آپ کی پشت پر ہوگی ۔ہمیشہ لوگ ابتداٙٙ آپ کو روکیں گے مگر جب آپ کا ڈنکا بجے گا اور سکہ چلے جا تب لوگ رفتہ رفتہ آپ کے گرد جمع ہونا شروع ہوں گے۔

مصنف جامعہ کراچی میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے طالب علم ہیں


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں