بشریٰ نواز۔۔۔۔۔
شازیہ بیگم کافی دیر سے نیلم باجی کا انتظار کررہی تھیں۔ دو بار فون بھی کیا،دونوں بار نیلم کا ایک ہی جواب تھا:
“بس باجی! راستے میں ہوں۔”
کون سا اتنا راستہ ہے جوکٹنے میں ہی نہیں آرہا، وہ بہت بے چینی سے نیلم کا انتظار کررہی تھیں۔
نیلم اچھے رشتے کرانے میں کافی شہرت رکھتی تھی۔ یہ آٹھواں رشتہ تھا جو وہ آج شازیہ بیگم کو دکھانے کے لئے لے جانے والی تھی، اسے پوری امید تھی کہ یہ لڑکی شازیہ بیگم کو ضرور پسند آۓ گی اور رشتہ ہونے کی صورت میں دونو ں طرف سے اچھی رقم مل جاۓ گی۔ کتنی ہی ضرورتیں اس کے سا منے تھیں۔
دوڑ بیل کی آواز سن کے جیسے شازیہ بیگم کی جان میں جان آئی۔
“اتنی دیر کردی تم نے نیلم! مجھے آج با زار بھی جانا ہے اور ابھی سے بتادو کہ لڑکی کیسی ہے”۔
نیلم نے گہرا سانس لیا اور بولی:
“باجی! میں کتنی لڑکیاں آپ کو دکھا چکی ہوں، پچھلی بار جو لڑکی دکھائی وہ مجھے تو بہت اچھی لگی، پڑھی لکھی، جاذب نظر، اچھا پیسے والا خاندان۔ اور کیا چاہیے آپ کو؟”
شازیہ بیگم کے ماتھے پر دس بل پڑ گیے۔
“دیکھو نیلم! تمہارا تو بیٹا ہے نہیں، تم کیا جانو بیٹے کی ما ں کے دل میں کیسے کیسے ارمان ہوتے ہیں۔ اب بھلا بتاؤ میرے واجد میں کیا کمی ہے جو میں وہ لڑکی پسند کرلیتی۔ تم نے دیکھا نہیں اس کا رنگ سانولا تھا اور جو اس سے پہلے دکھائی اس کا قد بہت کم تھا۔ اب اگر ایسی ہی لڑکی مجھے بہو بنانی ہوتی تو میری بھانجیاں بھی ہیں مگر کیا کروں، ان میں بھی ایک سانولی ہے اور دوسری کا قد کم ہے”۔
“چلیں باجی! بچی دیکھ لیں، اب اگے جو اللہ کا حکم”
اور پھر اللہ کا شکر کہ واجد کا رشتہ ہوگیا
آج شازیہ کی بیٹی نورین کو لوگ دیکھنے آنے والے تھے۔ نیلم ہی لڑکے والوں کے ساتھ آرہی تھی۔ اس بار بھی نیلم کتنے ہی رشتے لے کر آئی ۔ جو رشتہ شازیہ بیگم کو پسند آتا وہاں سے انکار ہوجاتا۔
کل جو لوگ نورین کو دیکھ کے گیے تو شازیہ بیگم کو بہت امید تھی کہ نورین ان کو پسند آئی ہے۔ انھوں نے خا طرتواضع بھی بہت کی، باتوں باتوں میں ڈھیر جہیز کا لالچ بھی دیا اور پارلر سے ہلکا میک اپ بھی کروایا۔
پھرنیلم کے فون کا انتظار کرتے کرتے اکتاہٹ سی ہونے لگی تو خود فون کرلیا۔
“نیلم! تم نے بتایا نہیں کل جو فیملی آئی، انھیں نورین پسند آئی ہے نا؟”
“شازیہ باجی میں نے انھیں بہت قائی کرنے کی کوشش کی ،نورین کی بہت تعریفیں کیں لیکن انھیں نورین پسند نہیں آئی”
شازیہ بیگم بے دم سی ہو گئیں۔
“ارے کیا کمی ہے میری بیٹی میں؟” وہ ہمت کر کے چلائیں۔
“میری نظر میں تو کوئی کمی نہیں لیکن انھیں گوری بہو چاہیے”
نیلم نے سادگی سے کہا اور فون بند کردیا۔