جبری گمشدگیاں اور صدرپاکستان کے گھر کے باہر دھرنا

جبری گمشدگیاں اور صدر پاکستان کے گھر کے سامنے دھرنا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ثناغوری۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک کا آئین ہر شہری کے حقوق کا ضامن ہوتا ہے اور پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 9 اس چیز کا ضامن ہے کہ وہ اپنے زندگی قانونی دائرے میں رہتے ہوئے مکمل آزادی سے گزار سکتا ہے

جبکہ آرٹیکل10 آئین پاکستان کا کہتا ہے کہ کسی بھی شہری کو بغیر کسی وجہ کے حراست میں نہیں لیا جاسکتا اور اگر حراست میں لیا جاتا ہے تو چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اس شہری کو متعلقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا لازم ہے اور اسے اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے لیکن اس کے باوجود بے شمار شہری جبری گمشدگیوں کا شکارکردئیے جائیں تو ان کی بازیابی کا مطالبہ قانونی بھی ہے اور اخلاقی بھی۔

جب سے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا دور آیا ہے کسی نہ کسی طرح سے اور تقریبا ہر ہی دور میں چاہے اور دور آمرانہ ہو یا جمہوری صحافت کو خاموش کروانے کی کوشش ہوتی آرہی ہے اور آج کے دور میں بھی جو میڈیا ہے وہ کنڑولڈ میڈیا ہے۔

ہر چینل کو دیکھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کا جھکائو کس پارٹی کی طرف ہے یا کس ادارے کی طرف ہے اور جو چینل یا اخبار ریاستی پالیسی کو نہیں مانتا پھر اس کا انجام پابندی کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔

خیر بات ہورہی تھی جبری گمشدگیوں کی شایدہی پاکستان کا کوئی صوبہ اور طبقہ ہو جو جبری گمشدگیوں کا شکار نہ ہو۔ آپ بلوچستان میں نظر دوڑائیں تو بے شمار لوگ آپ کو ایسے ملیں گے جن کا کوئی باپ، بیٹا، بھائی یا پھر شوہر جبری گمشدی کا شکار ہوگیا ہو،

اب بھی کوئٹہ میں کیمپ لگا ہے جس میں لاپتہ ہونے والے ورثا اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن نہ تو ان کی خبر کوئی اخبار شائع کرتا ہے نہ کسی چینل کے سرخ ڈبے میں چلتی بریکنگ نیوز کی زینت بنتی ہے۔

وزیرستان سے ایک شخص اٹھا جس نے ان لاپتہ افراد کے حق میں آواز اٹھائی اور دیکھتے دیکھتے وہ ایک مضبوط قوت بن گیا اور آج شاید پاکستان کو کوئی علاقہ ہی ہو جو منظور پشتین کے نام سے واقف نہ ہو؟

ناصرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی میڈیا بھی اس کا موقف لینے کے لیے اس کو مہمان بناتا ہے وہ غیر مسلح ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ جو بھی غیر قانونی طور پر لاپتہ ہوئے ہیں یا تو ان کو بازیاب کرو یا پھر عدالتوں میں پیش کر کے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

ایسا ہی ایک طبقہ کراچی میں ہے جس کا تعلق ایک مقامی سیاسی جماعت سے ہے۔ میں ذاتی طو ر پر جانتی ہوں میری ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی جس کو غیر قانونی طور پر ’’نامعلوم‘‘ افراد نے جبری گمشدگی کا شکار کردیا تھا۔

تین سال تک اس کو اس جبر کا شکار رکھا گیا، میری جب اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ مجھے ان تین سالوں میں چار مقامات پر رکھا گیااور تین سال بعد مجھے یہ کہہ کر چھوڑ دیا گیا کہ آپ پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا جبکہ اس شخص کا کہنا تھا کہ مجھے تو ان تین سالوں میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ میرا جرم کیا تھا۔

میرا بس اتنا سوال ہے کہ ایک شخص کو تین سال تک حبس بے جا میں رکھا گیا جس کے بچوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ہمارا باپ زندہ بھی ہے یا نہیں جس کی ماں عدالتوں کے دھکے کھا کھا کر مایوس ہوچکی تھی، جس کی اہلیہ رو رو کر کسی کو یہ بھی نہیں بتا سکتی تھی کہ وہ بیوہ ہے یا اس کا سہاگ زندہ ہے۔

ایسا ہی ایک دھرنا گزشتہ ہفتے سے کراچی میں بھی دیا جارہا ہے جس میں بھی جبری گمشدگیوں کے شکار افراد کی بازیابی کے لیے دھرنا دیا ہوا ہے۔ یہ دھرنا صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب عارف علوی کے گھر کے باہر دیا جارہا ہے لیکن عارف علوی نے ایک دن بھی ان سے رابطہ نہیں کیا

جبکہ ان ہی دنوں میں عارف علوی نے ایسے سیمینار میں شرکت کی جس کا عنوان تھا "صحت بنیادی حق” لیکن کیا زندگی کسی کا بنیادی حق نہیں؟ کیا آزاد رہنا کسی کا بنیادی حق نہیں ہے؟ کیا آئین کے تحت اپنے حقوق مانگنا غیر آئینی ہے؟

ہٹلر نے ہولو کاسٹ کرکے سمجھا تھا شاید وہ یہودیت کا نام دنیا سے ختم کردیگا لیکن وہ غلط ثابت ہوا کیونکہ تاریخ شاہد ہے اس چیز کی کہ طاقت کے زور سے نہ تو قلم خاموش کروایا جاسکا ہے نہ کسی کا نظریہ ختم کیا جا سکا ہے۔

یہ دور ماڈرن ہے ٹیکنالوجی کا دور ہے جہاں کسی حد تک چینلز پر تو سینسرشپ تو لگائی جاسکتی ہے جہاں اخبار میں خبریں شائع کروانے سے تو روکا جاسکتاہے لیکن سوشل میڈیا پر پابندی ناممکن ہے

کہاں تک خبروں کو روکیں گے یہ کام ناممکن ہے نوجوان نسل سوال پوچھنا چاہتی ہے سوال کے جواب چاہتی ہے، سوالات تو روکیں گے تونسلیں جاہل پیدا ہونگی۔

میں یہ نہیں کہتی ہے کوئی غیر قانونی کام کرے تو اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے بالکل کی جائے کوئی بھی آئین پاکستان کے خلاف بات کرے، ملکی سلامتی اور ملک کے خلاف زہر اگلے کا اس کے خلاف ضرور کارروائی ہونی چاہیے لیکن قانون کے مطابق۔

کسی کو غیر قانونی طریقے سے سزا دینا یا گمشدہ کردینا اس شخص کو مظلوم بنا دیتا ہے۔میرے ملک پاکستان میں قانون کی اتنی حکمرانی ہونی چاہیے کہ کوئی بھی قانون کے خلاف بات کرتے دس بار سوچے کہ میرے خلاف "قانونی کارروائی "ہوسکتی ہے اور اگر کوئی بے گناہ ہو تو اس کو اس بات کا کوئی ڈر نہیں ہونا چاہیے کہ اس کو غیر قانونی طریقے سے سزا دی جائے گی یا غائب کردیا جائے گا بغیر اس کا جرم بتائے۔

( پروفیسر ثناء غوری ابلاغ عامہ کی استاد، کالم نگار، بلاگر، مصنفہ اور سیاسی و معاشرتی تجزیہ کار ہیں، وہ معاشرے کے سلگتے ، حساس اور ا ن موضوعات پر بھی بلا جھجک اور بے تکان لکھتی ہیں جن کے بارے میں ہمارے معاشرے میں سوچنا بھی گناہ تصور کیا جاتا ہے ۔فیڈ بیک کے لئے پروفیسر ثنا غوری سے ان کی ای میل آئی ڈی [email protected] پر رابطہ کیاجاسکتا ہے)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں