بچوں کی عیدی، ایک اہم معاملہ جسے ہم نظرانداز کررہے ہیں

بچوں کی عیدی،ایک اہم معاملہ جسے ہم نظرانداز کررہے ہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ھنادی ایمان۔۔۔۔۔
عید کے اتنے ڈھیر مسائل بیان ہوئے، مولانا نے جہاں بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ بیان کردیا ، وہاں ایک سب سے اہم مسئلہ رہ گیا، شاید بڑوں نے اپنا فائدہ دیکھتے ہوئےاس مسئلے کو بیان کرنا ضروری نہ سمجھا۔

لیں جی! عین عید کے موقع پر گھروں میں مسئلہ کھڑا ہو گیا، بچوں کو تنگ کیا جا رہا ہے، حقوق ضبط کیے جا رہے ہیں، بلکہ حقوق پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے وہ بھی بچوں کے حقوق پر۔

بچوں کی شکایت ہے کہ اُن کی امیاں عیدی ضبط کررہی ہیں،اُنھیں عیدی سے محروم کیا جارہا ہے۔ کچھ بچوں کا شکوہ سن کر انتہائی حیرت ہوئی گویا ان کے لئیے امی ذرا بھی قابلِ اعتماد نہیں۔

جی !! انھیں شکایت یہ ہے کہ امی بہانے سے عیدی لے لیں گی اور واپس نہیں کریں گی۔ اُفففف! حد ہے بھئی زیادتی کی۔

اُن کی جمع پونجی یعنی عیدی کے جملہ حقوق کلی طور پر محفوظ کرانے کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔

اب ہمیں آواز اُٹھانی پڑے گی اور بھر پور طریقے سے ہم اُٹھائیں گے۔ دیکھیں جی! اگر بچے بھولے بھالے میرے جیسے بچے ہیں اور اپنی عیدی خوشی سے دیں تو آپ لے سکتی ہیں ورنہ نہیں۔
اور جو بچے ذرا بڑے ہیں اور دینا نہیں چاہتے تو اُن سے ہر گز بڑے عیدی نہیں لے سکتیں۔

جی ہاں !!
ویسے بھی یہ خاص دینی تہوار ہے اس پر ماؤں کو اپنے عمل سے کم از کم بچوں کو کچھ نہ کچھ سکھانا ہوگا۔

ہم تو ہمیشہ کم عمری میں اپنی پوری عیدی اپنی پیاری امی کو دے دیا کرتے تھے اور بعد میں جب ذرا بڑے کچھ سمجھ دار ہو گئے تو اُن کے پاس امانت رکھوا دیتے تھے پھر جب جتنی جی کرتا لے لیتے تھے اور ہمیشہ پوری واپس ملتی تھی ۔۔ امی کی طرف سے کبھی کوئی دھوکہ نہیں ہوا ہمارے ساتھ ، نہ حق تلفی ، مکمل امانت کا لحاظ رکھا جاتا تھا ۔۔ اُن کا ایک رول ماڈل اور نمونہ سامنے رہا ہمیشہ۔

امی کا رول عیدی یا کوئی چیز سنبھالنے کا ہوتا تھا اور وہ پوری ذمہ داری سے ہر بچے کی چیز الگ پاکٹ یا الگ جگہ پرسنبھالتی تھیں اور مانگنے پر دے دیا کرتی تھیں۔ اِس اہم موقع پر ماؤں اور بڑوں کو اپنی توجہ اس جانب رکھنی چاہئیے۔
کہ
اول: امانت / دیانت کا تصور بچوں کے ذہن سے مسخ نہ ہونے پائے۔
دوم: اہم موقعوں پر بچہ کشادہ دلی کا اظہار کرنا سیکھے۔
سوم: جن تہواروں کو حقیقتاً توجہ ملنی چاہئیے اُن تہواروں کی قدر اور محبت بچوں کے دلوں میں قائم رہنی چاہئیے۔

خصوصاً اس امانت دیانت کو بچوں کے ذہن اور کردار میں بٹھانے کے لئیے بچوں سے لین دین میں بالکل بے ایمانی نہیں کرنی چاہئیے۔
نہ کسی بڑے کو اُن کا حق مارنا چاہئیے ، نہ اُن کی چیز کھا لپیٹ لینی چاہیے۔
وہ اپنی چیز آپ پر بھروسہ کر کے آپ کے پاس رکھواتے ہیں تو اُن کو واپس دینی بھی چاہیے ۔

اگر عیدی گھر میں استعمال ہو بھی جائے تو بچوں کو بتا کر استعمال کریں اور ضرورت کا موقع گزر جانے کے بعد فوراً اُن کی عیدی اُن کی پاکٹ یا الگ جگہ میں رکھ دیں اور انھیں بتا دیں یا اُنھیں ادا کردیں۔

ماؤں کو ہر معاملے میں بالعموم اور عید پر عیدی کے معاملے میں بالخصوص بچوں کے سامنے امانت و دیانت کا عملی نمونہ پیش کرنا چاہئیے اور کشادہ دلی کا اظہار کرنا چاہئیے۔ بچے یہیں سے اچھی روایات اور طریقے سیکھ جاتے ہیں الحمد للہ۔

یہی طریقہ بڑے اختیار کریں گے تو بچے بھی آگے چل کر صحیح راستہ چنیں گے۔ اُن کو بھی حق دینا اور امانت ادا کرنا آئے گا۔ دیانت کی حساسیت پیدا ہو گی۔

خیال رکھیں یہ بچے آپ کے آئینہ ہیں۔ آپ آج جو رخ انہیں دکھائیں گے ، کل کو وہی رُخ اُن کا آپ کے سامنے آئے گا۔

پھر ہم وقت کا، زمانے کا شکوہ کرتے ہیں کہ زمانہ ہی ایسا آ گیا ہے کہ امانت ناپید ہو گئی۔ نہیں !! آنے والا وقت آپ خود بنا رہے ہیں، آنے والا وقت آپ کی گود میں پل رہا ہے۔ آپ کے سامنے کھڑا ہے، وہ وقت آپ کا ہر چھوٹا بڑا عمل دیکھ رہا ہے۔ آپ کو بھی کل ایسے ہی رویوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

لہذا سب امیوں سے گزارش ہے کہ اپنی ذمہ داری پر توجہ دیں ۔۔ آپ صرف اس بات پر نظر رکھیں کہ بچے عیدی کیسے اور کہاں خرچ کر رہے ہیں اس سے زیادہ تصرف کا آپ کو کوئی اختیار نہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں