شمائل غازی۔۔۔۔۔۔۔
بچپن سے ہی مابدولت ثابت شدہ خوش گمان تھے۔ جن دنوں ضیاالحق کا عروج تھا ہم نودس سال کے معصوم سے پاکستانی تھے۔ جب نک سک سے تیار ہمارے سپہ سالار پی ٹی وی پہ خطاب فرمانے آتے تو بجیا کی طرف سے ڈیوٹی ہماری لگ جاتی کہ ٹی وی کے سامنے الرٹ بیٹھو اور جیسے ہی لہراتا ہوا پرچم سکرین پہ نظر آۓ، فوراً اطلاع دی جاۓ
اور ہم ایسا ہی کرتے بلکہ پرچم کے نظر آتے ہی اطلاعی نعرہ لگاتے اور قومی ترانہ کے احترام میں باادب کھڑے ہوجاتے اور اختتام تک سانس بھی بس ضرورتاً لیتے تھے۔
صدر پاکستان “میرے عزیزہم وطنو” کہتے تو ہمارا ننھا سا دل پھول کر کپا ہوجاتا کہ موصوف کے مخاطب ہم ہیں۔ تقریر سمجھ آتی یا نا آتی لیکن اس دوران بولنا یا کھلینا قوم سے غداری تصور ہوتا اور یوں ہم باادب ہوکر مکمل خطاب سنتے اور پاکستان زندہ باد کے جملے کے ساتھ ہی رکی ہوئی سانس تسلی سے لینے کی خوشی انجواۓ کرتے۔
گھر کے سب بڑے صدر پاکستان کی تقریر کے مختلف پہلوٶں پہ گفتگو کا آغاز کرلیتے اور ہم ان تبصروں کو سن کر۔۔۔مانو آسمان کی وسعتوں میں اڑتے۔ گھر کا ایک فرد بھی حاکم وقت کو برا بھلا نہ کہہ رہا ہوتا۔ ہم اپنے تئیں مان چکے ہوتے کہ آج کی تقریر کے بعد وطن عزیز ترقی کے نئے زینوں پہ قدم رکھ دے گا۔
وقت کا پہیہ کچھ آگے سرکا۔ ایک شام ابی کے ہمراہ بیٹھے ٹی وی پہ چلنے والی انگریزی فلم دیکھ رہےتھے کہ اچانک اظہر لودھی سکرین پہ نمودار ہوۓ اور صدر پاکستان کا طیارہ تباہ ہونے اور ان کی دیگر افسران کے ہمراہ شہادت کی خبردی۔
گھر کا ہر بڑا غم کی تصویر نظر آرہا تھا کہ ملک کا سربراہ اور قیمتی فوجی حادثے کا شکار ہوگئے۔ گھر آنے والا ہر فرد بتارہا تھا کہ عوام رورہی ہے۔ شہر میں موجود ضیاالحق کا کٹر مخالف بھی جب روتے ہوۓ کہہ رہا تھا کہ نیک انسان تھا، مجھے تو بس کچھ پالیسیوں سے اختلاف تھا۔ اور یہ مخالف دوستوں کے ساتھ کسی فٹ پاتھ پہ بنے چاۓ خانہ میں بیٹھا مٹھائی اور چاۓ سے لطف اندوز ہورہا تھا۔۔۔۔۔۔کہنےلگا: یہ مٹھائی اور چاۓ اٹھا کر لے جاٶ، جی نہی چاہ رہا۔
آج برسوں گزر گئے اس واقعہ کو ،زندگی نے کئی رنگ دکھاۓ، ملکی سیاست میں کئی اتار چڑھاٶ اپنی آنکھوں سے دیکھے، سیاسی اختلاف میں بھی ایک رکھ رکھاٶ تھا، مخالفین کی بحثوں میں اخلاقیات تھیں۔
کبھی کسی نے کسی کو گالی دے کر مخالفت نہی کی تھی۔ گھنٹوں اپنےاپنے لیڈر کا دفاع کرنے کے بعد ہنستے مسکراتے ایک دوسرے کو گلے ملتے ہوۓ “چلو چھڈو یار” کے الفاظ کے ساتھ الوداع ہوتے۔
کوئی کسی کی پارٹی تبدیل کروانے کامشن نہیں رکھتا تھا۔ اختلاف میں بھی احترام ملحوظ تھا۔ پھر دس سال پیچھے چلے جائیں ، مشرف کے دور کا آغاز ہوا۔ کچھ اہل بصیرت تڑپ اٹھے، یہ روایتوں کو تہ تیغ کررہا ہے، یہ ہماری اقدار کے ساتھ توہین آمیز رویے پیدا کررہا ہے،
یہ جھکی نظروں کو بے باکی کی بےلباسی زیب تن کروادے گا۔ یہ سپہ سالار ہوتے ہوۓ بھی جوانوں سے قومی حمیت کے سب نشان مٹانے پہ تلا ہے۔
پہلی بار فواد چوہدری جیسا بد لحاظ وزارت کی سیٹ پہ آیا اور قوم اس کے بعد کبھی اسی کی دہائی میں واپس نہ جاسکی جہاں لحاظ، مروت نام کے دیے روشن تھے۔
کل کے پیدا ہونے والے بڑوں کو بدتہذیبی سے مخاطب کرنے لگے۔جنھیں قرآن کی چند آیات درست تلفظ سے نہی آتیں وہ علما کی پگڑیاں اچھالنے لگے۔اور اب تو بس۔۔۔۔۔۔اقدار،روایتیں تہذیب، اخلاقیات کہیں مرکھپ چکے۔ انتظار ہے کہ کب جنازہ پڑھا جاۓ۔۔۔۔۔
اور ان سب کے لیے یہ عوام نہیں گناہ گار بلکہ ان کے لیڈرز ہیں جنہوں نے اپنے اپنے کارکنان کو طاقت بڑھانے کا ذریعہ سمجھ لیا۔ یہ نہیں جانا کہ قوم کی اس تباہی کا گناہ عظیم ان کے کندھوں پہ ہےکہ تربیت کے نام پہ انہیں کس غلاظت میں پھینک کر خود عہدوں کے مزے اڑاۓ۔جوابدہی بڑا کٹھن مرحلہ ہوگا۔