ڈاکٹر رضوان اسد خان۔۔۔۔۔۔۔۔
موروثی بیماریاں وہ ہوتی ہیں جو جینز میں کسی گڑبڑ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں. اس “گڑبڑ” کو ہم سائینسی زبان میں “میوٹیشن”(mutation) کہتے ہیں. میوٹیشنز کی بہت سی ممکنہ اقسام ہیں اور انتہائی پیچیدہ ہیں.
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ میوٹیشنز آئی کہاں سے؟
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے میں ارتقاء سے متعلق آپ کو اپنا اور متقی مسلم سائنسدانوں کی اکثریت کا نظریہ بتانا چاہتا ہوں۔ ہمارے نزدیک انسان کی تخلیق کسی صورت میں بھی ارتقاء کے ذریعے نہیں ہوئی۔
پودوں اور دیگر جانداروں کی تخلیق “عین ممکن ہے” کہ اللہ نے بذریعہ ارتقاء کی ہو کیونکہ اس کی مخالفت میں کوئی شرعی نص موجود نہیں لیکن آدم علیہ السلام کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے (جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے)، بلاواسطہ اور براہ راست انسانی صورت میں پیدا فرمایا. لہٰذا انسان روز اول سے انسان ہی ہے،
کسی بھی نچلے درجے کے جاندار سے “ایوالو”(evolve) نہیں ہوا. البتہ آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک انسانی ساخت میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں جنہیں ہم ارتقائی تبدیلیاں کہہ سکتے ہیں کیونکہ ان کا بنیادی میکنزم وہی ہے جس پر ارتقاء کی زیادہ تر تھیوریز کی بنیاد ہے، یعنی میوٹیشنز۔۔۔
یہ میوٹیشنز اچھی بھی ہوسکتی ہیں جو کسی نئی صلاحیت کا موجب بنتی ہیں لیکن زیادہ تر بری ہی ہوتی ہیں جو کسی بیماری کی وجہ بنتی ہیں۔
اب دوسری بات یہ سمجھیں کہ ہر جین(gene) کے دو حصے ہوتے ہیں جنہیں “الیلز”(alleles) کہا جاتا ہے. ایک الیل ماں سے آتا ہے اور ایک باپ سے۔ یوں بچے کا ہر جین والدین کے جینز کا حسین امتزاج ہوتا ہے۔
اسی طرح اکثر جینز میں ایک الیل اپنے ساتھی الیل کے مقابلے میں زیادہ قوی ہوتا ہے۔ اسے “ڈامینینٹ”(dominant allele) کہتے ہیں اور اس کے مقابلے میں کمزور والے کو “ریسیسو”(recessive allele)۔
جینز کا کام والدین کی خصوصیات(traits) کو اولاد میں منتقل کرنا ہوتا ہے۔ ہر جین پوری انسانی خصوصیات میں سے کسی ایک کا حامل ہوتا ہے اور بعض پیچیدہ خصوصیات کیلئے سینکڑوں جینز درکار ہوتے ہیں۔
اس پس منظر میں اگر باپ کا الیل ڈامینینٹ ہوگا تو اس جین والی خصوصیت باپ پر جائے گی اور اگر ماں کا الیل ڈامینینٹ ہو گا تو ماں پر۔ ایک الیل ڈامینینٹ اور ایک ریسیسو کیوں ہوتا ہے، یہ ایک پیچیدہ بحث ہے جس میں پڑنے کی ہمیں فی الحال ضرورت نہیں۔
اسی طرح بیماری کے حامل میوٹیشن زدہ جین میں بھی اگر ڈامینینٹ الیل بیماری کا حامل ہو تو بچے میں ہر صورت بیماری پیدا ہو گی لیکن اگر بیمار الیل ریسیسو ہے تو والدین میں سے دوسرے والے کا صحت مند ڈامینینٹ الیل اسے دبا لے گا اور بچے میں ایک خراب الیل کے باوجود بیماری پیدا نہیں ہو گی۔
یہ صرف اس صورت میں بیماری پیدا کرے گا جب دوسری طرف سے بھی اسی جیسا بیمار ریسیسو الیل آئے۔ ایسے بچوں کو جن میں ایک بیمار ریسیسو اور ایک صحتمند ڈامینینٹ الیل ہو، “کیرئیر” کہتے ہیں۔
جب یہ بچہ بڑا ہوکر بچے پیدا کرے گا تو اس کا تولیدی نظام اس کے تمام جینز کو دو حصوں میں تقسیم کر دے گا۔ آدھے الیلز ملاپ میں حصہ لیں گے اور باقی آدھے اس کے زوج کی طرف سے آئیں گے اور یوں ان کے بچے میں جینز کی تعداد اور ساخت نسل رد نسل برقرار رہے گی۔
اب اللہ کی مہربانی سے موروثی بیماریوں کی بہت بڑی اکثریت ایسی ہے جن میں بیمار الیل ریسیسو ہوتا ہے۔ یہ صرف اس صورت میں ظاہر ہوتی ہیں جب ماں اور باپ دونوں کیرئیر ہوں یعنی دونوں کی طرف سے ایک ایک بیمار الیل آئے۔
ایسی بیماریوں کو “آٹوسومل ریسیسو”(autosomal recessive) کہتے ہیں۔ ان کیسز میں دو قسم کے خلیے/سپرمز باپ میں بنتے ہیں: یعنی 50 فیصد بیمار الیل والے اور 50 فیصد صحت مند الیل والے۔ اور اسی طرح دو قسم کے خلیے/بیضے ماں میں بنتے ہیں: آدھے بیماری والے اور آدھے صحت مند ۔
اب 25 فیصد امکان ہے کہ بیمار سپرم بیمار بیضے سے ملے اور بچے میں بیماری ظاہر ہو جائے۔
اور 25 فیصد امکان ہے کہ صحت مند سپرم صحت مند بیضے سے ملے اور بچہ ہر لحاظ سے صحت مند ہو۔
اور تیسری صورت یہ ہو گی کہ باپ کا صحت مند سپرم ماں کے بیمار بیضے سے ملے (25 فیصد امکان) یا باپ کا بیمار سپرم ماں کے صحت مند بیضے سے ملے (25 فیصد امکان) … نتیجہ ایک ہی ہے یعنی کیرئیر اور یوں اس کا امکان 50 فیصد ہو گا۔
اس سارے پیچیدہ حساب کتاب کو سمجھانے کا مقصد یہ ہے کہ فرض کریں کہ ایک خاندان میں کسی موروثی بیماری (مثلاً تھیلیسیمیا) کا ایک کیرئیر موجود ہے۔ اس کے 6 بچے ہیں جن میں سے 4 میں وہ اپنا بیمار الیل منتقل کردیتا ہے اور بظاہر سب بچے صحت مند ہیں۔
ان بچوں کی خاندان میں ہی شادیاں ہوتی ہیں اور ہر بچہ آگے اپنے 3، 3 بچوں میں یہ الیل منتقل کرتا ہے۔ اب جب تیسری نسل میں بھی خاندان کے اندر کی شادیاں ہوں گی تو لامحالہ دونوں ماں باپ کے کیرئیر ہونے کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے۔
اگر ان کے بچوں میں تھیلیسیمیا نہ بھی ہو تو بھی اب کیرئیر بچوں کی پیدائش کے امکانات پہلے سے دوگنا ہو جائیں گے۔ اور اگر کزن میرج کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو چوتھی نسل میں کئی بچے تھیلیسیمیا کے مریض ہوں گے۔
اور تھیلیسیمیا کے ایک مریض کو سنبھالنا کتنا مشکل ہوتا ہے اس کا عام لوگ اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ اور خدانخواستہ کسی جوڑے کے دو بچے اس موذی مرض کا شکار ہو جائیں تو یہ زندگی ان کے لیے کسی جہنم سے کم نہیں۔
اور یہ صرف ایک مثال ہے.
جبکہ انسانی جینوم کی مکمل میپنگ کے بعد سے اب تقریباً ہر دوسری بیماری کا کوئی نہ کوئی تعلق جینیاتی تبدیلی یا میوٹیشن سے نکلتا چلا آ رہا ہے…!!!
لہٰذا محض چند تاریخی مثالوں کو کزن میرج کے حق میں دلیل نہ بنائیں۔ کھجور کی کاشت کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا تھا (مفہومِ حدیث) کہ دنیاوی معاملات میں تم مجھ سے بہتر سمجھ بوجھ رکھتے ہو۔
سو اس سو فیصد دنیاوی معاملے کو خواہ مخواہ کسی کزن سے محبت کی وجہ سے دینی معاملہ مت بنائیں اور اس کے ماہرین پر اعتبار اور اپنے مستقبل کے بچوں پر رحم کریں۔