پاکستان، ہڑتال، دکانوں کے شٹرڈائون

ہڑتال کرنے والے تاجر جواب دیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مدثر محمود سالار۔۔۔۔۔۔
حکومتِ پاکستان کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف تاجر برادری نے ملک بھر میں ہڑتال کی۔ تاجر برادری کے مطالبات ان کے مطابق درست ہوسکتے ہیں مگر ہمیں تصویر کے دونوں رخ دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔

میری گزارشات کا مقصد نہ ہی حکومت کا دفاع ہے اور نہ ہی تاجر برادری پر ناحق تنقید، مہنگائی کا توڑ کرنا جس کی ذمہ داری ہے وہ اپنی ذمہ داری کا خود جواب دہ ہے مگر میں یہاں ایک عام پاکستانی شہری کی حیثیت سے اپنا مقدمہ پیش کررہا ہوں۔

تاجر برادری نے جن نکات کو بنیاد بناکرہڑتال کی ہے ان میں یہ شکوہ بھی کیا ہے کہ ڈالر مہنگا ہونے سے تیل کی قیمت بڑھی اور ہمارے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ حکومت تاجر برادری پر ناجائز ٹیکس لگارہی ہے۔

جنابِ والا ! حکومت کی زیادتی کو ہم تب سننے کو تیار ہوں گے جب آپ میرے چند سوالوں کا جواب دے دیں:

آپ تاجر ہیں آپ کا کاروبار ماہانہ پچاس ہزار کماتا ہے یا پچاس لاکھ ، کیا آپ نے گزشتہ سال اپنی آمدن پر حقیقی ٹیکس دیا تھا یا ٹیکس میں فراڈ کیا تھا؟ حکومت پروڈکٹس پر سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکس لگاتی جو آپ ہر شے کی قیمت میں جمع کرکے تب اس شے کی قیمت وصول کرتے ہیں مگر عوام تو ہر شے پر ٹیکس دے رہی اور اب آپ کو اپنی آمدن کے مطابق وہ ٹیکس جو عوام سے آپ نے وصول کیا۔ وہ حکومت کو جمع کرانا ہے۔ کیا آپ دیانت داری سے اپنے کاروبار کا ٹیکس فائل کررہے ہیں؟

آپ کا رونا ہے کہ تیل کی قیمت بڑھنے پر اخراجات بڑھ جاتے ہیں تو قیمت زیادہ ہوجاتی ہے مگر ایمان داری سے بتائیں کہ جتنے فیصد تیل کی قیمت بڑھتی ہے کیا آپ اسی شرح سے شے کی قیمت بڑھاتے ہیں یا ناجائز منافع کی ہر حد پار کرنے لگتے ہیں؟

حکومت کی تعین کردہ قیمت فروخت پر آپ میں سے کتنے تاجر حضرات عمل کرتے ہیں؟

اب ان باتوں کا جواب بھی میں ہی دے دیتا ہوں۔ بس! آپ آئینہ میں اپنا منہ دیکھنے کی جرات پیدا کرلیں اور جرات نہ ہو تو چلو بھر پانی میں ڈوب جائیے گا۔

میں پاکستانی شہری ہوں، میں نے پاکستان میں کبھی اپنی آمدن پر ٹیکس نہیں دیا، میں اور میرے کئی دوست ماہانہ لاکھوں روپے آن لائن کماتے رہے ہیں مگر حرام ہو جو ہم نے کبھی ایک روپیہ بھی ٹیکس دیا ہو۔ میرے دوست اب بھی ماہانہ لاکھوں روپے آن لائن قرآن پاک پڑھا کر کمارہے ہیں مگر ہمارا ضمیر ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں۔

میں بحیثیت تاجر اپنے ملازم کو کبھی حکومت کی مجوزہ کم سے کم تنخواہ نہیں دیتا مگر رونا حکومت کے خلاف ہے، میں منڈی میں بیٹھا ہوا ظالم بیوپاری ہوں جو کسان سے کوڑیوں کے دام شے خرید کر اسی جگہ اس کے سامنے دو سو سے تین سو گنا قیمت بڑھاکر بیچ دیتا ہوں مگر حکومت سے نالاں ہوں۔ میں ایک ٹرانسپورٹر ہوں جو تیل کی قیمت ایک روپے بڑھنے پر بیس روپے کرایہ بڑھادیتا ہوں مگر حکومت سے مجھے بھی شکوے ہیں۔

میں ہی وہ تاجر ہوں جو ماہانہ پانچ سے سات لاکھ روپے کا مال فروخت کرکے ایک روپے بھی کاروباری ٹیکس نہیں دیتا مگر حکومت کے ظلم سے تنگ ہوں۔ میں ایک ایسا تاجر بھی ہوں جو ماہانہ دس کروڑ روپے کا مال برآمد کرتا ہے مگر کسٹم کے کاغذات میں اس کی قیمت پندرہ سے بیس لاکھ روپے درج کرواتا ہوں اور ٹیکس چوری کرکے حکومت کو گالیاں دیتا ہوں۔

میں غلیظ اور گھٹیا ترین اجزاء سے کھانے پینے کی اشیاء تیار کرکے اپنے ہم وطنوں کو بیچتا ہوں مگر بدکردار پھر بھی حکومت ہے۔

میں اپنے ہوٹلوں میں حرام اور مضر صحت گوشت اپنے ہم وطنوں کو کھلاتا ہوں مگر بددیانت حکومت ہے۔ میں ہی وہ شخص ہوں جس کی فیکٹری میں جعلی دوائیں بنتی ہیں مگر میری کمائی “الحمد للہ پاک” ہے۔

میں اپنی خصوصیات گنوانے لگوں تو دفتر کے دفتر بھر جائیں مگر میری اعلیٰ صفات ختم نہیں ہوں گی کیونکہ میں “الحمدللہ! مسلمان” پاکستانی تاجر ہوں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں