سعدیہ ارشد ۔۔۔۔
آج میں نےبطور پرنسپل اسکول جوائن کیا۔ پہلے جو پرنسپل تھیں انھوں نے ہفتے کو اسکول چھوڑ دیا اور میں آج پہلی دفعہ ان کی جگہ آفس میں بیٹھی۔ میں یکم جولائی سے اس سکول میں جارہی تھی مگر پرنسپل صاحبہ کے جانے تک میں جائزہ لیتی رہی کہ اسکول کا نظام کیسا ہے وغیرہ وغیرہ۔
بریک کے بعد ایک بچے کی والدہ صاحبہ آئیں، آتے ہی مجھے کہنے لگیں: میم! جب سے میڈم اسمإ گئی ہیں اسکول کا نظام تباہ ہوکے رہ گیا ہے۔ “بچوں کی پڑھائی بہت متاثر ہو رہی ہے”۔
ان کی یہ بات سن کر میں ہکا بکا ہوگئی کہ پرنسپل صاحبہ تو صرف آج ہی نہیں آئیں۔
مجھے ہنسی تو بہت آئی مگر اس پر قابو پاتے ہوئے میں نے کہا کہ وہ تو صرف آج ہی نہیں آئیں، اس سے پہلے تو روز آ رہی تھیں۔ آپ تب کیوں نہیں آئیں؟
کہنے لگیں:”نہیں! مجھے پہلے بھی مسئلہ تھا مگر۔۔۔۔”
خیر! ان کے پاس ایک لمبی فہرست تھی شکایتوں کی۔
ان کے جانے کے بعد مجھے خیال آیا کہ ہم کسی بھی ذمہ داری والی جگہ پر فائز ہوں، اپنی غلطی نہیں مانتے، سارا قصور اور الزام دوسروں پر عائد کردیتے ہیں۔
اور اس سے امید لگاتے ہیں کہ اس کے آتے ہی کایا پلٹ جائے گی یا بچہ اسکول میں جاتے ہیں عامل فاضل بن جائے گا۔ اسکول والے جادو کی چھڑی گھماتے ہی بچے کو پرفیکٹ بنا دیں گے۔
ہم بچے کو بھی بچہ نہیں سمجھتے ، ہمارا خیال ہوتاہے کہ ہمارا بچہ ذہنی سطح پرہم سے بھی اونچی چیز ہے۔
خیر! آج مکمل تو نہیں کچھ کم اختیارات کے ساتھ آج بطور پرنسپل میرا پہلا دن تھا۔ خلائی مخلوق میرے ساتھ ہے۔
اب دیکھئے کہ آگے کیا ہوتا ہے، اللہ ہی بہتر کرے۔