مدثرمحمودسالار، کالم نگار

امت مسلمہ کی ایک بری عادت

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مدثر محمود سالار۔۔۔۔۔۔۔۔
اہلِ مغرب گزشتہ کئی دہائیوں سے آگ و خون کا کھیل کھیل رہے ہیں اور گھوم پھِر کر سارا ملبہ مسلمانوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ بلاشبہ عصرِ حاضر میں دنیا اچھی طرح جان گئی ہے کہ سب کھیل سپر پاور بننے کے چکر میں کھیلا گیا اور کھیلا جارہاہے۔

جیسے اہلِ مغرب کو اپنا کیا کرایا امت مسلمہ کے نام لگانے کی عادت ہے اسی طرح امت مسلمہ بھی اپنے ہر برے اور قبیح فعل پر پردہ ڈالنے کے لیے مغرب کا نام استعمال کرتی ہے۔
اس موضوع کے حوالے سے میں چیدہ چیدہ نکات میں اپنا موقف سامنے رکھنا چاہتا ہوں اور یہ میرا ذاتی موقف سمجھا جائے اسے کسی گروہ یا جماعت سے منسوب کرنے کی حماقت نہ کریں۔

اسلام میں چونکہ چنانچہ جیسی میٹھی گولیوں کی قطعا اجازت نہیں ہے اور دنیاوی اور اخروی معاملات پر اسلام تفصیل سے رہنمائی کرتا ہے مگر یہ افراد پر منحصر ہے کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوتے ہیں یا منافقت کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو بدنام کرتے ہیں۔

بطور امت مسلمہ ہمارا واویلا یہی ہے کہ سارا گند اہل مغرب نے ڈالا ہے اور یہی فساد کی جڑ ہیں، ایک نکتہ تو یہ یاد رکھنے کا ہے کہ دنیا کا نظام تب ہی چلے گا جب ایک حق اور ایک باطل آمنے سامنے ہوگا۔ اگر صرف حق ہی حق رہ جائے تو دنیا ہی جنت بن جائے گی اور ایسا ہوجانا فطرت کے خلاف ہے۔

لاریب مسلمانوں پر فرض ہے کہ ظلم اور جبر کے خلاف دیوار بن کر کھڑے ہوجائیں اور باطل قوتوں کو غالب نہ آنے دیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ باطل کے مظالم کی مذمت کے ساتھ ساتھ خود امتِ مسلمہ اپنے حق پر ہونے کے لیے کتنی جدوجہد کررہی ہے اور مسلم امہ کا دامن حق کی گواہی دیتا بھی ہے یا ہم بھی درحقیقت باطل کا ہی ایک روپ ہیں؟ ؟؟؟؟

مغرب کے تمام کرتوتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ خود امت مسلمہ اللہ کی طرف سے دی گئی ذمہ داری کو کس حد تک پورا کررہی ہے۔

اس وقت مغرب اور مسلمانوں کا بنیادی جھگڑا دہشت گردی کے نام پر طرفین کی خون ریزی ہے۔
ہم یہاں مغرب کے موقف کو بھی نہیں چھیڑتے بلکہ امت ِ مسلمہ کے کردار پر بات کریں گے۔

جیسا کہ ہمارا عمومی رویہ ہے کہ ہم یہ کہہ کر اپنا دامن دھو لیتے ہیں کہ یہ بھی مغربی سامراج نے کیا اور یہ بھی اور وہ بھی،،، ایک لمبی فہرست ہمارے پاس ہر وقت تیار ہے جس کو ہم اپنے دفاع اور مغرب پر الزام کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ جہاں آپ مغرب کے ظلم و جبر پر واویلا مچارہے وہیں اپنے گھر کی بھی خبر لے لیں۔ باطل اپنی بقا کے لیے ہر قدم اٹھائے جارہا اور ہم حق کے لیے کیا کررہے ہیں؟ ہم پاکستان کے اندرونی مسائل پر بات نہیں کرتے بلکہ امت مسلمہ کا بین الاقوامی کردار اپنے سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں۔

ہم مسلمان اپنے دین پر کس حد تک عمل پیرا ہیں اور بالخصوص جنگ اور طاقت کے اس کھیل میں ہم کس طرف ہیں؟ عراق،شام، فلسطین، کشمیر، لیبیا ، افغانستان سمیت جہاں جہاں مسلم امہ ظلم کا شکار ہے اس کی ذمہ داری بہت حد تک مغرب پر آتی ہے مگر ہم مسلمان بھی ظلم و جبر کے کھیل میں کسی سے قطعا کم نہیں ہیں۔

مغرب کے ظالمانہ کردار کی شدید مذمت اور مخالفت بجا مگر ہم اپنے ہاتھ سے کیے گئے مظالم سے پردہ پوشی کب تک کرتے رہیں گے؟

آہا اب آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ صاحبِ قلم سٹھیا گئے ہیں ورنہ کہاں ظلم و جبر کہاں امت مسلمہ؟
چلیں میری بات پوری پڑھ کر اپنا محاسبہ کرلیں کہ ہم بطور امت اس وقت حق کی سربلندی کے لیے کس طرف ہیں۔

ہم مسلمان ہیں اور ہم نے اپنے مسلمان بھائیوں کو مروانے کے لیے اپنے ہوائی اڈے باطل گروہ کے سپرد کیے۔ ہم افغانستان پر اترنے والی جنگ میں باطل کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔

ہمیں اپنے پڑوسی پر ہونے والے ظلم کو روکنا تھا مگر ہم دنیاوی لالچ میں پڑ گئے، اگر ہم باطل کا ساتھ نہ دیتے تو اللہ کے ہاں ہم سرخرو ٹھہرتے مگر ہم دنیاوی زندگی پر تکیہ کرگئے۔ ہم رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کے دعویدار ہیں مگر ہم نے اپنے مسلمان پڑوسی ملک کے سفیر کو خود گرفتار کرکے اس کی تذلیل کرتے ہوئے باطل کے حوالے کیا اور ہمارے ایمان پر کوئی دھبہ بھی نہیں لگا۔

یاد رکھیں اللہ کے دربار میں کوئی حیل و حجت اور چونکہ چناچہ جیسی بات قبول نہیں ہوگی اور اس جرم میں مجھ سمیت ہر مسلمان شامل رہا ہے۔ہم مغرب کے ظلم پر شکوہ کناں ہیں مگر ہم بہت چالاکی سے خائن الحرمین کے اس ظلم پر خاموش ہیں جو اس نے مصر میں مسلمانوں پر روا رکھا۔

زیادہ دور کی بات کیا کرنا ابھی کل کی ہی بات جان لیں جب خائن الحرمین نے ایک صحافی کو بےدردی سے قتل کروایا اور امام کعبہ نے اس ظلم پر بادشاہِ وقت کا دفاع کیا۔ کیا امام کعبہ اس ظلم کی بابت اللہ کے سامنے کوئی دلیل پیش کرنے کی ہمت رکھتے ہیں؟

ہم اپنا دامن دیکھے بغیر مغرب پر سارا ملبہ ڈال دیتے ہیں۔ نام نہاد مسلمان ریاستوں میں انصاف کا خون ہوتا یے کیا اس کے پیچھے بھی مغرب کا ہاتھ ہے؟

چند سال پہلے ماڈل ٹاون میں انسانوں کا قتل عام ہوتا ہے اور آج تک مجرم سزا کے کٹہرے میں نہیں لائے جاسکے کیا یہ بھی مغرب پر ڈال دیا جائے؟ ہم کس کس ظلم پر آنکھیں بند کرکے مغرب کو موردِ الزام ٹھہراتے رہیں گے؟

ہم بنی اسرائیل کی طرح اس زعم میں مبتلا ہیں کہ ہم آخری نبی کی امت ہیں اور ہم ہی اسلام کے محافظ ہیں۔ نہیں ایسا نہیں ہے، اللہ کو زمین پر فساد پھیلانے والے ابلیس بھی پسند نہیں اور اس کے بھیجے ہوئے پیغمبر کی امت اگر منافقت کا لبادہ اوڑھ لے تو یہ بھی اسے پسند نہیں۔

وہ قادرِ مطلق ہے اس سے کوئی سوال جواب کرنے والی ہستی نہیں اور اگر ہم نہ سدھرے تو وہ ہماری جگہ ہمارے بعد آنے والوں سے اپنے دین کی سربلندی کے لیے کام لے گا۔

خدارا ہر جرم و جبر کو دوسروں سے منسوب کرکے یہ مت سمجھ لیں کہ ہم خدائے واحد کو اپنی ذمہ داریوں کے متعلق جوابدہ نہیں ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں