مدثرمحمودسالار، کالم نگار

ہم ہائے ہائے کیوں کرتے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مدثر محمود سالار۔۔۔۔۔۔۔
ہائے یہ ہم شاعروں کی ہائے ہائے
اور مکرر واہ وا چاروں طرف
شاعر فرماتے ہیں کہ جب ہم ہجر کے مارے ہائے ہائے کرتے ہیں تو ہر طرف سے پوچھا جاتا ہے کہ وائے وائے۔
یہ انگلش والا وائے ہے یعنی کیوں۔۔۔۔۔

لفظ ‘ہائے’ سے پہلی شناسائی تو لڑکپن میں تب ہوئی جب چھوٹی بہن صاحبہ کلاس کے بعد فرماتی تھیں:”ہائے! ہائے!! میں امی کو بتائوں گی۔ اس نے ہوم ورک نہیں کیا تھا اور اس کو سر نے آج پھر ڈانٹا تھا۔

ہائے ہائے ویسے تو ہر عمر میں نکلتی ہے مگر بڑھاپے میں اٹھتے بیٹھتے ہی ہائے ہائے کی آوازیں آتی ہیں۔ جوانی میں نکلنے والی ہائے ہائے زیادہ دردناک ہوتی ہے کیونکہ کبھی بجلی کا بل، کبھی سکول فیس اور کبھی ناگہانی خاندانی تقریبات پر ہونےاخراجات سے تکلیف کی شدت میں ہائے ہائے نکلتی ہے۔

ہائے کی ایک قسم خالصتاً نسوانی ہے جسے بوقت ضرور ہر جملے میں ٹانگ کر خواتین اپنے جذبات کی شدت کا اظہار کرتی ہیں۔
چند نسوانی جملہ ہائے ہائے کی مثالیں پیش خدمت ہیں:

ہائے اللہ تو نے پھر وہی پرانا سوٹ پہن لیا۔
ہائے نگوڑی تیرے میاں تیرے لیے پردیس سے کچھ بھی نہیں لائے؟
ہائے اللہ میں مرگئی۔ ہائے تیرے تو بال سفید ہورہے لڑکی۔
ہائے ہائے تیرا منگتیر تو شہزادہ لگ رہا۔

انگلش میں ہائے کے ساتھ پہلا تعارف کچھ یوں ہوا کہ
حُسین صاحب ہمارے انگلش کے استاد تھے پہلے دن کلاس میں آکر بولے:
Hey guys
بس مولانا یاسین صاحب تو دل پر لے گئے، فوراً سرگوشی میں بولے: یار اے بندہ استاد نہیں لگدا کوئی چول ہی ہے۔ سانوں کہندا اے ہائے گائز۔ اسی بندے آں کوئی گاں تے نہیں۔

پھر گوروں کے دیس میں آکر تو ہم صبح شام ہائے ہائے کرنے لگے ہیں۔

ہائے کے استعمال کی بیسیوں وجوہات ہمارے پاس موجود ہوتی ہیں مگر گورے بغیر کسی وجہ کے ہائے ہائے کرتے رہتے ہیں۔ دو بندے سنجیدگی سے کسی موضوع مسئلے پر رازونیاز کررہے ہوں گے، اچانک کوئی تیسرا دور سے ہی زور سے ہائے کرکے تراہ نکال دے گا اور اس کی ہائے پر جب اس کی طرف دیکھا جائے تو بتیسی بھی نکلی ہوگی اور ہائے بھی نکل رہی۔

ہمارے ہاں ہوٹل پر جائو تو اندر داخل ہوتے ساتھ ہم پوچھتے ہیں:’واش روم کہاں ہے؟ اور یہاں ہوٹل پہ جائیں تو آپ کے کچھ کہنے سے پہلے ریسپشن والے کی ہائے نکل جاتی ہے،

یہ راز ابھی تک منکشف نہیں ہوا کہ ریسیپشن والے اور فرنٹ ڈیسک والے ہمیں دیکھ کر ہائے ہائے کیوں کرتے ہیں جبکہ ہم نے تو ابھی کھانا بھی نہیں کھایا ہوتا جس کی مقدار ہوٹل والوں کی ہائے ہائے نکالنے پر مجبور کردے۔

کسی گھر یا دکان میں داخل ہوتے وقت سلام کیا جاتا ہے مگر گورے اتنے جوش سے ہائے کہتے ہیں کہ بندہ فوراً سمجھ جاتا ہے کہ موصوف کہیں گرے ہیں اور پائوں کےساتھ ساتھ آئی فون بھی ٹوٹ گیا ہے اس لیے آتے جاتے ہائے نکل رہی ہے۔ سب سے مشکل مرحلہ تو تب آتا ہے جب مریض کے پاس آکر ڈاکٹر کہتا ہے ہائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مریض اپنی تکلیف بھول کرسوچ میں پڑ جاتا ہے کہ ڈاکٹر کی ہائے کیوں نکل گئی۔

گورے ہمدرد بھی بہت ہوتے ہیں اور ہر تکلیف میں آپ کا درد محسوس کرتے اور اظہار کرتے ہیں جیسا کہ
سامان کی ٹرالی بھر کر پیسوں کا جوڑ توڑ کرتے کیش کائونٹر پر جائو تو کیشر آپ کا کھیسا خالی ہونے کی تکلیف محسوس کرکے آپ سے پہلے ہائے کہتا ہے۔

حتی کہ کوئی ادائیگی بذریعہ فون کرنی ہوتو کال کرنے پر مطلوبہ نمبر پر کال وصول کرنے والے آپ کی تکلیف بوجہ ادائیگی محسوس کرکے نا سلام نہ دعا بلکہ کھٹاک سے ہائے بولتے ہیں۔
آفس پہنچو تو کام کرنے کی تکلیف سب ہی محسوس کر لیتے ہیں اور فوراً سے بیشتر سب ہائے ہائے کرکے آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ کام کرتے ہوئے جو موت آپ کو پڑتی ہے اس کی تکلیف ہم محسوس کررہے ہیں۔ بس جناب گوروں کی ہائے ہائے نے ہمیں ان کا دیوانہ بنادیا ہے، درد شناس اور اظہار ہمدردی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے یہ ہائے ہائے۔

غضب تو یہ کہ عموماً بڑے صاحب کے سالانہ دورے سے پہلے سب کی ہائے ہائے نکل رہی ہوتی ہے اور یہاں تو بڑے صاحب اتنے درد شناس ہیں کہ آکر خود بھی ہائے کہہ کر ہمارے اس دکھ میں شریک ہوجاتے ہیں جو ان کی آمد کی وجہ سے ہم ہڈ حراموں کو ہورہا۔

گوروں کی ہائے ہائے سے یاد آیا اپنے وطن میں بھی لوگوں کی ہائے ہائے نکل رہی ہے اور بلاتمیز جنس و عمر یہ ہائے ہائے جاری ہے۔ چلیں ہائے ہائے کا دور ہے سب ہائے ہائے کریں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں