بجلی کا کھمبا

درجنوں انسان کرنٹ سے کیوں اور کیسے مرے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابن فاضل۔۔۔۔۔۔۔
رات میں کوئی جن نہیں گزرا جو سارے کھمبوں کو ارتھ کرکے چلاگیا اور صبح درجنوں بیچارے ،مجبور اور بے بس کرنٹ لگنے سے راہی ملک عدم ہوگئے. سالوں کی ہم سب کی محنت ہے یہ بربادی۔

جب لوہے کے کھمبوں کو کرنٹ سے بچانے والے سرامک انسولیٹرز کی خریداری کی جارہی تھیں،اس وقت میرے ہی کسی چچا نے زائد منافع کے حصول کیلئے ناقص ترین اجزاء سے تیار کیے گئے انسولیٹرز مہیا کیے، پھر میرے ہی بھائی بندوں نے موٹے موٹے لفافے لے کر ان ناقص انسولیٹرز کو شرف قبولیت بخشا، میرے تایا نے بھی بھاری رقم لے کر اسے لیب ٹسٹ میں پاس کی رپورٹس دیں۔

اسی طرح کھمبوں کے دونوں اطراف کی تاروں کو ملانے کیلئے انسولیٹڈ تار کے جمپر لگائے جاتے ہیں۔ اس تار پر چڑھی ہوئی انسولیشن انتہائی ناقص ہوتی ہے جو بارش کے پانی میں کرنٹ روکنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی۔ یہ ناقص انسولیشن والی تار بھی ہم میں سے ہی کسی نے محکمہ کو بیچی اور اس کو پاس کروانے کیلیے وہی رشوت کا منحوس دائرہ۔

اس وقت کسی کے ذہن میں نہیں آیا کہ ان رشوت کے ناپاک روپوں کے عوض ہم درجنوں ہم وطنوں کی موت کاسودا کررہے ہیں۔

اور جب ان انسولیٹرز کی تنصیب کی باری آئی تو محکمہ کے پاس کوئی تربیت یافتہ قابل اور کاریگر وافر عملہ ہی موجود نہیں، جو ہیں وہ ضرورت سے کہیں کم اور انتہائی غیر تربیت یافتہ اور وجہ ظاہر ہے کہ وسائل کی قلت۔

سب جانتے ہیں کہ کراچی میں کئی دہائیوں سے تیس فیصد بجلی چوری ہوتی رہی ہے. محلوں کے محلے اور بستیوں کی بستیاں کنڈوں پر چل رہیں۔

دھونس اور رشوت سے میں اور میرے سب احباب، ہم سب ملکی وسائل کو شیر مادر کی طرح لوٹتے رہے ہیں۔ تیس فیصد بجلی چوری ہونے کے بعد وسائل آسمان سے تو نازل نہیں ہونے تھے۔ کہاں سے لاتے تربیت یافتہ عملہ کے لیے تنخواہیں؟ سو چاروناچار جو غیر تربیت یافتہ لائن مین تھے انہیں سے کام کروایا گیا۔ کوئی بعید نہیں کہ نقائص رہ گئے ہوں۔ یہاں ایک بار پھر بدعنوانی آڑے آئی اور اس کم تربیت یافتہ عملے نے بھی نہیں بخشا۔

انہوں نے کھمبے لگانے کیلئے دیا گیا آدھا سامان لگایا، اور آدھا بیچ کھایا۔ نہ کھمبے کی بنیاد میں کوئی کنکریٹ ڈالی گئی اور نہ ہی اسے مناسب طریقے سے گراؤنڈ کیا گیا۔ بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ ہر کھمبے کی تنصیب کیلیے تقریباً بیس ہزار کا بجٹ ہوتا ہے جس سے کھمبے کی بنیاد میں کنکریٹ ڈالنا ہوتا ہے۔

اس کے ساتھ اسی، نوے فٹ گہرائی کا گھڑا کھود کر اس میں مناسب نمکیات ڈال کر اس میں لوہے کی ایک تار دبائی جاتی ہے جو کسی بھی کرنٹ لیکیج کی صورت میں کرنٹ کو زمین میں منتقل کر دیتی ہے اور انسانی جان کو خطرہ نہیں ہوتا۔ اس عمل کو گرائونڈ یا ارتھ کرنا کہتے ہیں۔

یہ ہر ہر کھمبے کے ساتھ کرنا لازم ہوتا ہے اور اس کیلیے بجٹ فراہم کیا جاتا ہے لیکن کھمبے تنصیب کرنے والا عملہ سو فیصد کھمبوں کا یہ بجٹ ہڑپ کرجاتا ہے اوربدعنوانی کا یہ قبیح فعل سالہا سال پورے ملک میں جاری ہے۔

اگر کھمبے کو درست انداز سے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا گراؤنڈ کردیا جائے تو کرنٹ سے ذی روح کے مرنے کا امکان انتہائی کم ہوجاتا۔

ظاہر ہے کہ ہر جگہ ہر محکمہ میں آڈٹ کا نظام ہوتا ہے اور بجلی کے محکمہ میں تو انٹرنل اور ایکسٹرنل دو طرح کے آڈٹ ہوتے ہیں۔ آڈیٹر صاحب نے بھی جو اعتراض کا پیر لکھا وہ بھی مناسب فیس لیکر ہذف کردیا۔

رونا تو اس بات کا ہے ہم سب دنیا داروں کی موجودگی میں سالہا سال سے یہ غفلت جاری ہے اور کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ اب جب ہلاکتیں ہوئی ہیں تو ہر طرف شور برپا ہے۔ یہ بربادی راتوں رات نہیں ہوئی۔ ہم سب کی سالوں کی محنت ہے۔ اب آپ بتائیں کہ ان بیچاروں کا قاتل کون ہے؟ مجھے تو لگتا ہے ہم سب قاتل ہیں، آپ کو کیا لگتا ہے۔

اب بھی اگر ایک بے رحمانہ انکوائری ہو اور سب کھمبوں پر جہاں ہلاکتیں ہوئی ہیں،ان کا جائزہ لیا جائے, یقیناً وہ مناسب طریقے سے گراؤنڈ نہیں ہوں گے۔ تنصیب کنندگان، پاس کرنے والوں سب ذمہ داروں، کو قتل کی سزا ملے اور اس کی تشہیر ہو۔ آئندہ کیلئے میرے بچے اس طرح بےبسی کی حرام موت نہ مریں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں