تیمیہ صبیحہ۔۔۔۔۔۔
میّا کی چھتنار چھاؤں میں آنکھ کھلتے ہی خود کو بزرگ پایا، سو آپ ہی اپنے کو “حُسین ” موسوم کیاـ گھر والے جو بھی بلاتے ہوں ، حسینی قائد قوم کو ہر جا و بے جا روڈ میپ پہ چلایا کرتے ـ بعد ازاں جملہ زبانی و جسمانی تادیب و سرزنش، بھی اپنے قائدانہ کندھوں پر کمال ذمہ داری سے اٹھایا کرتے ـ
اس الٹرا ایمپاورمنٹ سے مزین دور میں عشق ہوا تو اپنی ذات والا صفات سے ـ مگر جلد ہی اماں باوا نے تمام تر لیڈری یکسر رد فرماتے ہوئے ہاتھ اک حضرت کے ہاتھ میں تھما کے چلتا کیاـ چڑیاں دا چنبہ تو سمجھا ہی نہ تھا، بابل کی چوکھٹ سے لمبی اڈاری مارتے نہ حاضر دیکھا نہ مستقبل نظر آیا ـ
سو وہ جو منہ زور دعوائے قیادت و سیادت تھا، اسے قوام کا روایتی چولا نہ پہننا آیا اور نتیجہ دن رات کی کھٹ پٹ میں نکلا۔ جب ماہ و سال پیشانی پر بل لیے، بے زار ، سپاٹ لہجے میں اک دوجے کے سنگ مثل روبوٹ گزرنے لگے تو سوچا کہ کیا فائدہ، ابا کے لاکھوں روپے صرف کرنے کا جب دل ہی دل سے نہ ملےـ
دنیا کی تمام تر تہ و بالا کرتی ترقی کا دارو مدار قوت عشق پہ ہے ـ آپ جانیے ذہن میں جب سودا سما جائے تو پتھر بھی موم ہوتا ہے ادھر تو پھر اک دھڑکتا لوتھڑا تھا کہ جسے قلب کہتے ہیں ـ
چناچہ خود کو صنف آہن سمجھنا چھوڑ کے کچھ نزاکت و لطافت پیدا کرنے کی خاطر ترکیبیں ڈھونڈا کیں ـ رومانوی دیوان و دبستان پڑھ پڑھ کے انسان کے لطیف جذبات اور ان میں تحریک پیدا کرنے کا ازبس فارمولا دریافت کیاـ قسما قسم کے نسخوں میں بوئے گل کو اکسیر پایا تو تجربہ کی ٹھانی ـ
اپنے دیس میں تو خام مال ہی بکتا تھا لہذا دشت و ساگر پار کر کے خالص بدیسی لیونڈر خریدا ـ ہمراہ نازک سی بانس کی بنی تیلیاں اور پھول فراہم کیا کہ لیونڈر ان تیلیوں میں بسے گا اور جونہی ہوا کے دوش پر سفر کرتا، مشام جاں سے ٹکرائے گا، تونہی محبوب آپ کے قدموں میں ہو گاـ
سر شام نازک سی بوتل کے سیل بند ڈھکن کو کھول کے خود کو معطر کیا اور ایسا تیر بہدف نسخہ پانے پر شاباش دی ـ تیلیاں بوتل میں ٹھونس کے اک ادا سے پلنگ کے سرہانے دھرے میز پر لیمپ تلے سجائیں کہ ہواؤں کا رخ ہدف کی جانب ہی رہے ـ رات گئے جناب کی دفتر سے واپسی ہوئی، آگے بڑھ کے استقبال کرنا، لیپ ٹاپ تھامنا، کپڑے تھمانا، کھانا پیش کرنا اور منہ سے کچھ پھوٹنا تو اپنے مزاج کے خلاف تھا،
لہذا رومانس کا تمام تر دارو مدار اس ننھی کانچ کی شیشی پر تھا ـ حضرت جب آپ ہی بدل بدلا کے بستر پر پہنچے تو دھڑکنیں تیز ہو گئیں ـ کن انکھیوں سے دیکھا، پھر آنکھیں مل مل کے دیکھا، پھر سونگھا، ا ور پھر زور سے سونگھا لیونڈر کی گدراتی مہک تو موجود تھی مگر ہدف مثل سنگ اپنی جا پہ ایستادہ تھاـ
وا حسرتا! بُرا ہو اس موئے سام سنگ کا جس نے ایس ایٹ قسم کی کلموہی سوتن سینے پہ مونگ دلنے کو میاں کی چھاتی پر بٹھا رکھی تھی ـ خرابی ہو اس نا ہنجار کی جس نے گولیاں ٹافیاں کرش کرنے کو اس فتنے میں بھر رکھی تھیں ـ
کینڈی پہ کینڈی گرتی جائے، لالی پاپ، پوپ اپ ہوتی جائے، چاکلیٹین پگھلتی جائے، نہ پگھلا تو صیاد کا دل نہ پگھلاـ آنکھوں پہ پردہ سا تننے لگا، دل اس ناقدری پر خون ہوا جاتا تھا کہ کھڑاک کی زور دار آواز نے اٹھا بٹھایا ـ
کم بخت سوتن کو جس شان سے پہلو میں ایستادہ کیا تھا، ننھی سی لیونڈر کی شیشی بے عزتی کی تاب نہ لا کے اوندھیائی پڑی تھی ـ خوشبودار تیل بہ بہ کے میز سے نیچے ٹپک رہا تھا ـ کچھ معلوم نہ ہوا کہ جو سیال بہ رہا تھا وہ لیونڈر کی شیشی سے رواں تھا یا نیم اندھیرے میں جھاڑن پکڑے مشرقی خانم کی چشم گریہ کا نوحہ تھا ـ البتہ برابر میں اک سنگ دل برف کی سل یکساں ردھم سے خراٹے بھر رہی تھی ـ