کیا آپ صادقہ بصیری سلیم کو جانتے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

صادقہ بصیری سلیم واقعتاً عام طالبہ نہ تھیں کہ لاکھوں افغان لڑکیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے منصوبے سے پیچھے ہٹ جاتیں۔

یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب امریکی افواج ناٹو کی چھتری تانے عشروں کی جنگ اورپھر خانہ جنگی کے شکارملک میں اترچکی تھیں، آٹھ برس سے زائد عمر کی طالبات کے تحصیل علم پر پابندی لگانے والی طالبان حکومت ختم کردی گئی تھی۔ اسی سبب صادقہ پرامیدتھی کہ اب طالبات کو درپیش مشکلات میں کچھ کمی واقع ہوگی۔ وہ اس یقین سے مالا مال تھیں کہ امید کی یہی کرن آنے والے وقتوں میں ماحول کو مکمل روشن کرے گی۔

اس وقت صادقہ امریکی ریاست اوٹاوا کی ایک یونیورسٹی میں تھیسز پر کام کررہی تھیں ، سب جانتے ہیں کہ تھیسز کاکام تھوڑا نہیں ہوتا، دن رات ایک کرناپڑتاہے، اسی سے کیرئیر کی بلندیاں نصیب ہوتی ہیں۔ تاہم کیرئیر سے متعلق جوش وجذبہ صادقہ کو خودغرض نہ بناسکا، انھوں نے صرف اپنے کیرئیر ہی کی فکر نہیں کی بلکہ وہ ساتھ ہی ساتھ اپنے وطن کی لاکھوں لڑکیوں کا کیرئیربھی بناناچاہتی تھیں۔

صادقہ نے زندگی کے18برس پاکستان میں واقع ایک مہاجر کیمپ میں گزارے۔ یہاں رہتے ہوئے اپنے آبائی صوبہ وردک میں لڑکیوں کا ایک سکول قائم کرنے کا خواب دیکھا۔ اس خواب کی تکمیل کے لئے وہ مہینوں تک اپنے جیب خرچ سے رقم بچاتی رہی تھیں۔ انھیںخبرتھی کہ جب وہ آبائی علاقے میں پہنچیں گی ، سکول کھولنے کی کوشش کریں گی تو کیاکچھ مشکلات پیش آئیںگی۔ اس لئے بلیک بورڈ،چاک، کاپیوں سمیت طالبات کی ضرورت کا ساراسامان لے کر ہی واپس پہنچیں اور گائوں کی ایک غیرآباد مسجد میں پہلاسکول کھول لیا۔ یہ ’عروج لرننگ سنٹر‘تھا۔ ابتدائی طورپر 36طالبات کو جمع کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اللہ نے صادقہ کے منصوبے میں برکت عطافرمائی ، آج ’’عروج لرننگ سنٹر‘‘ ایک این جی او کاروپ دھارچکاہے۔ دس برسوں کی محنت یہ ہے کہ 4000 لڑکیاں اس کے سکولوں میں پڑھ رہی ہیں۔ ان لڑکیوں کی خوش نصیبی ہے کہ انھیں صادقہ جیسی سرپرست اورمعلمہ ملیں ، جوجانتی ہیں کہ ان بچیوں کی زندگی کو کیسے شانداربنایاجاسکتاہے۔

افغانستان جیسے ملک میں صادقہ کے لئے کام کرنا آسان نہیں، بہت سی مشکلات کا سامناکرناپڑرہاہے۔ یہاں15برس اوراس سے زائد عمر کے پڑھے لکھے لوگ مجموعی ملکی آبادی کا محض28.1فیصد ہیں۔ مردوں کی شرح 43.1فیصد جبکہ خواتین کی شرح محض12فیصد ہے۔ افغانوں میں اکثریت عورتوںکوانسان نہیں سمجھتی۔ ایسے معاشرے میں کام کو آگے بڑھانے کے لئے صادقہ کو جو کچھ کرناچاہئے تھا، انھوںنے وہی کیا۔ انھوں نے معلّمات تلاش کیں حالانکہ یہ آسان کام نہیں تھا۔ ہم اپنے معاشرے میں بھی ایسے علاقے دیکھتے ہیں جہاں لمبی مونچھوں والا جاگیردار یا وڈیرہ سکول کھلنے کی راہ میں سینہ تان کے کھڑاہوجاتاہے۔ افغان معاشرہ اس سے بھی دوہاتھ آگے ہے۔ بہرحال صادقہ نے ٹیچرز کو تلاش کیا، انھیںخوف سے نجات دلائی، حوصلہ، ہمت اور بہادری سکھائی اوراپنے ساتھ کام میں شامل کرلیا۔

2005ء میں صادقہ نے امریکا کے مائونٹ ہولیوک کالج میں گریجویشن کے لئے داخلہ لے لیا جہاں سے 2009ء میں واپس آئیں تو ان کے ذہن میں افغانستان کا پہلا کمیونٹی کالج قائم کرنے کا منصوبہ تھا۔ طالبات کی اعلیٰ کلاسوں کے لئے اساتذہ کی تلاش زیادہ مشکل کام تھا لیکن یہ کام بھی کیا۔ صادقہ نے اندرون، بیرون ملک پروفیسرز سے رابطہ کیا اور انھیں ’’عروج لیڈرشپ اینڈ مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ‘‘ سے منسلک کیا۔ یوں افغانستان کا پہلا کمیونٹی کالج برائے خواتین کھل گیا۔ اس طرح کے پراجیکٹس کے لئے بڑی فنڈنگ ناگزیرہوتی ہے۔ اس کے لئے صادقہ نے نت نئی پارٹنرشپس تلاش کیں۔ یوںپرائمری سکولوں اورکالجز کادائرہ پھیلنے لگا ۔ زیادہ ترسکول دیہاتی علاقوں میں قائم کئے گئے کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ ساری ترقی شہروں تک ہی محدود ہے جبکہ دیہاتی خواتین کے لئے کچھ بھی نہیں بچتا۔

صادقہ کے کام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ امن وامان کی خراب صورت حال ہے۔ اس کا منفی اثرطالبات کی سکول میں حاضری پر پڑتاہے۔ بالخصوص امتحان کے دنوں میں ناقابل تلافی نقصان ہوتاہے۔ صادقہ کہتی ہیں کہ ہم تعلیمی شیڈول سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ایک بار حد ہی ہوگئی جب ہم شیڈول سے پورا ایک مہینہ پیچھے ہوگئے۔ ایک مسئلہ عمارتوں کے بڑھتے کرائے ہیں۔کئی مرتبہ زیادہ کرائے کی وجہ سے سنٹرکی جگہ تبدیل کرناپڑی۔ہمارے پاس اس قدر فنڈز نہیں کہ ہم زیادہ کرایہ دے سکیں۔

صادقہ وہ سارے حالات بھی بیان کرتی ہیں، جن کے درمیان سے گزرکرایک خاتون کو داخلہ ٹیسٹ کیلئے عروج انسٹی ٹیوٹ میں آناپڑتاہے لیکن اس کے والدین بے خبرہوتے ہیں۔صادقہ کے بقول بہت سے کیسز میں صرف ماں ہی کوخبرہوتی ہے، بدقسمتی سے زیادہ تر لڑکیوں کو گھر سے اجازت ہی نہیں ملتی۔ مردوں کانظریہ ہے کہ بالغ لڑکیوں کوگھر سے بالکل باہر نہیں نکلناچاہئے۔بہت سی لڑکیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو سوچتی ہیں کہ انھیں کون سا زیادہ پڑھنے لکھنے کا موقع ملے گا، اس لئے ابتدائی چندکلاسز پڑھنے کاکیافائدہ! یہ مسئلہ حل کرنے کیلئے سابقہ طالبات کی ایک ایسوسی ایشن قائم کردی گئی جو لڑکیوں اوران کے والدین کو قائل کرنے میں لگی رہتی ہے۔ اس حکمت عملی سے کامیابی حاصل ہوئی۔ ماہانہ تقریبات ہوتی ہیں جہاں طالبات اورخواتین کوملنے جلنے کا موقع مل جاتاہے، ایک دوسرے سے حوصلہ اورآئیڈیاز ملتے ہیں، سماجی مسائل پر گفتگو ہوتی ہے اوراعتماد بھی حاصل ہوتاہے۔

صادقہ نے افغانستان ہائیر ایجوکیشن پراجیکٹ کی مدد سے اپنے پراجیکٹ کو مزید بہتراورموثربنایا۔ اس دوران 18اعلیٰ افغان تعلیمی اداروں اور ان کے سسٹم کا مطالعہ کیاکہ بہترین نتائج کیسے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انھیں اپنے تعلیمی اداروں کا معیار بلند کرنے کے لئے نئے آئیڈیاز ملے۔ اب جوں جوں صادقہ کی جدوجہد دنیا میں نمایاں ہورہی ہے، انھیں مختلف اداروں سے تعاون ملناشروع ہوچکاہے۔ مائیکروسافٹ کارپوریشن نے صادقہ سے رابطہ کرکے کالج کے لئے سافٹ وئیرز فراہم کرنے کی پیش کش کی۔ وہ کچھ کمپیوٹرز لینے کی کوشش کررہی ہیں تاکہ ان سافٹ وئیرز سے استفادہ کیاجائے۔

گزشتہ برس 18سے30برس عمر کی 72خواتین عروج لیڈرشپ اینڈ مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ سے فارغ التحصیل ہوئیں۔امسال بھی تعداد اتنی ہی ہوگی۔ صادقہ کہتی ہیں کہ جب لڑکیاں کالج تعلیم سے فارغ ہوکر ملازمت کے لئے مارکیٹ میں داخل ہوتی ہیں تو انھیں ناقابل تصور خوشی ملتی ہے۔تاہم اس سے بھی زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ ہم معاشرے میں تبدیلی پیداکرنے والے لوگ پیداکررہے ہیں۔ میرے لئے یہ بہت حیرت اورخوشی کاموقع تھا کہ جب گریجویشن مکمل کرنے کی تقریب کے موقع پرایک لڑکی کا بھائی اس کی تصویراتاررہاتھا حالانکہ یہی بھائی اسے سکول جانے سے روکتاتھا۔

صادقہ اوران جیسی دیگرخواتین کی کوششوں کا اثرکس قدر ہے؟ یہ بلند ہمت خاتون کہتی ہیں کہ وہ افغان خواتین کی زندگیوں میں واضح بہتری محسوس کررہی ہیں۔ ملک میں خواتین کی بہتری کے لئے پالیسیاں بن رہی ہیں،آئین میں خواتین کے مساوی حقوق تسلیم کئے گئے ہیں۔ افغانستان کے ملینئیم ڈویلپمنٹ گولز طے کئے گئے ہیں جن میں خواتین کے لیے اہم ترین اہداف رکھے گئے ہیں۔ حکومت نے گھریلو تشدد کے خاتمے کے لئے عالمی کنونشن پر دستخط بھی کردئیے ہیں۔وفاقی کابینہ نے حال ہی میں نیشنل ایکشن پلان فارویمن بھی منظورکرلیا ہے۔خواتین پر تشدد کے خلاف بھی قانون منظورہوچکاہے۔اس سب کچھ کے اثرات نظربھی آئے کہ قومی اسمبلی کی 249نشستوں میں سے68سیٹیں خواتین کے لئے مخصوص ہیں جبکہ ایک خاتون نے گزشتہ صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لیاتھا۔

صادقہ کہتی ہیں: ’’معاشرے میں خواتین کی پیش قدمی حیران کن ہے۔ تعلیم، صحت اورزراعت کے شعبوں ہی میں نہیں بلکہ امن وامان کے ذمہ دار اداروں میں بھی خواتین نظرآرہی ہیں۔ ایک تہائی غیرسرکاری انجمنوں(این جی اوز) کی قیادت بھی ان کے ہاتھ میں ہے۔ وہ کاروبار بھی چلارہی ہیں اوران کی رسائی بین الاقوامی منڈیوں تک ہوچکی ہے۔ ایک سو سے زائد افغان خواتین ایتھلیٹس بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیتی ہیں اوراب سکولوں میں ایک تہائی تعداد طالبات کی ہے۔ اس کے باوجود افغانستان میں سب اچھا نہیں ہے۔ خواتین کو اب بھی ہراساں کیاجاتاہے۔ عائشہ ، جس کی ناک کاٹ دی گئی تھی،کوعشروں تک نہیں بھلایاجاسکے گا۔ اس کی تصویر ایک بین الاقوامی انگریزی میگزین نے اپنے سرورق پرشائع کی تھی۔ خواتین اساتذہ اور خواتین پولیس اہلکاروں کے قتل ، معلمات اورطالبات پر تیزاب پھینکنے کے واقعات رونما ہورہے ہیں ‘‘۔

صادقہ نے خواتین پر تشددکے خاتمے کے لئے فیملی ویلفیئر سنٹر قائم کیا جو 14000خواتین کو خدمات فراہم کررہاہے، وہ سرکاری سٹاف کی تربیت بھی کررہاہے تاکہ وہ گھریلو تشدد کے خاتمے کے لئے اپنا کردار اداکریں، اورعلمائے کرام کو بھی قائل کرتاہے کہ وہ خواتین کے مسائل پرگفتگو کریں۔ 2009ء میں خواتین کی فلاح وبہبود کے لئے کام کرنے والی دنیا کی جن چھ خواتین کو ’’رائزنگ وائس ایوارڈ‘‘ سے نوازاگیا، ان میں سے ایک صادقہ اوردوسری امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن تھیں۔ یہ ایوارڈ ’’وائٹل وائسز گلوبل پارٹنرشپ‘‘ کی طرف سے دیاجاتا ہے۔اس موقع پراس ادارے کے بانی نیلسن بلوم نے صادقہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ نے جنگوں سے تباہ حال ملک میں عروج لرننگ سنٹر کے ذریعے لڑکیوں کی تعلیم کا انتظام کیا لیکن آپ کی زیادہ اہم کامیابی یہ ہے کہ آپ نے لاکھوں افغان لڑکیوں کوہمت اورحوصلہ عطاکیا کہ وہ بھی اپنی زندگی کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے آگے بڑھیں۔ صادقہ اب گم شدہ بچوں کی تعلیم کے لئے مراکز بھی قائم کرنے کامنصوبہ رکھتی ہیں، اسی طرح افغان ویمن لیڈرشپ انسٹی ٹیوٹ قائم بھی کرناچاہتی ہیں تاکہ کالج کی تعلیم سے فارغ ہونے والی خواتین کو بزنس مینجمنٹ سکھائی جاسکے اوران کی قائدانہ صلاحیتیوں کی پرورش کی جاسکے ۔

آئیڈیا کیسے پھوٹا؟

صادقہ نے جب 2005ء میں امریکا کے ہولیوک کالج میں داخلہ لیا تو وہ اس کی بانی میری لیون(Mary Lyon) سے بہت متاثرہوئیں جنھوںنے 1836ء میں دنیا کا پہلا خواتین کالج میساچوسٹس(امریکا) میں قائم کیاتھا۔ میری لیون ایک کسان کی بیٹی تھیں۔ابتدائی زندگی نہایت عسرت سے گزری ۔ پانچ برس کی تھیں کہ والد کا انتقال ہوگیا۔ یوں اب سارے گھروالے ہی کھیتی باڑی میں جت گئے۔ تیرہ برس کی تھیں کہ ماں نے دوسری شادی کرلی اورسب کچھ چھوڑکرچلی گئی۔ اب میری لیون اوربھائی آرون ہی پیچھے باقی بچے تھے۔ مشکلات بھری زندگی میں بھی سکول کی تعلیم سے منہ نہ موڑا، مختلف سکولوں میں پڑھتی رہیں۔ کئی سکولوں سے محض اس لئے نکال دی گئیں کہ ان کے پاس فیس نہ ہوتی تھی۔ سترہ برس کی عمر (1814ء)میں انھوں نے خود بھی سکول میں پڑھاناشروع کردیا۔اس کے بعد انھوں نے اپنے آپ کو غریب لڑکیوں کی تعلیم کے لئے وقف کردیا۔جس کرب سے وہ طالب علمی کے دور سے گزریں، اس سے دوسری غریب لڑکیوں کو محفوظ رکھناچاہتی تھیں۔ آنے والے برسوں میں انھوں نے15000ڈالرکے فنڈز جمع کئے اورمائونٹ ہولیوک کالج کھڑاکردیا۔ وہ ابتدائی بارہ برس تک اس کی پرنسپل رہیں۔اس بہادرخاتون نے اپنے کالج میںصرف غریب خواتین ٹیچرز ہی کوجگہ دی۔اپنے ادارے میں وہ لڑکیوں کی جسمانی ورزش پر بھی خوب توجہ دیتی تھیں۔پہلے پہل طالبات کو ایک میل پیدل واک کرائی جاتی تھی بعدازاں اسے 45منٹ تک محدود کر دیاگیا۔ وہ خواتین کو ایک ہی سبق دیتی تھیں کہ وہ مردوں کے ہاتھوں کھلونا بننے کے بجائے تعلیم حاصل کرنی اور ٹیچر بننا چاہئے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں