ٹائم مشین

ٹائم مشین

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عفیفہ شمسی:
امتحانات کے بعد جو چند گنی چنی چھٹیاں ملیں اس میں کئی بار ہم یونیورسٹی بلائے جا چکے تھے اور پھر تین دن قبل اطلاع ملی کہ روزانہ ورکشاپ اٹینڈ کرنی ہے اور لازمی ہے ۔ شعبان کو مدرسہ کے امتحان ہیں ، سمسٹر کے شدوع ہونے سے قبل ہی ہم دوبارہ PT کے لیے سکولز میں بھیج دیے جائیں گے۔

اور میں نے کیا سوچا اور کِیا؟
میں نے تین دن لگاتار چھٹی کی اور کوئی ورکشاپ اٹینڈ نہیں کی۔
میں نے مدرسہ کے امتحان دینے کا ارادہ ختم کردیا۔
میں نے سوائے ضروری کام کے کوئی ذمہ داری سر پہ اٹھانے سے انکار کردیا ۔
میں نے میٹرک کے بعد دوبارہ پہلی مرتبہ راتوں کو دیر تک جاگ کے اپنی پسند کی کتابیں پڑھیں۔

میں جانتی ہوں یونیورسٹی سے مسلسل رخصت لینے سے میری حاضری پہ بہت اثر پڑ سکتا ہے۔
مجھے معلوم ہے مدرسہ کے امتحانات میرے سب سے پسندیدہ لمحات ہوتے ہیں، میرا خواب ہے ۔ میں نے پورا سال انتظار کیا تھا۔ مجھے معلوم ہے میری دو سال کی سند رہ جائے گی۔

مجھے ادراک ہے کہ لوگوں کے بہت سے کام نہ کرنے سے ، ذمہ داری نہ اٹھانے سے لوگ خفا ہو سکتے ہیں ۔
مجھے پتا ہے رات کو جلد سو جانا اچھی بات ہے لیکن ۔۔۔۔۔

زندگی کے دو رخ ہیں۔ ایک طرف ہم دوسروں کے لیے جیتے ہیں۔ ایک جانب ہمیں اپنے لیے جینا ہوتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے لیے جینے سے مراد بھی دراصل یہی ہے کہ خالق کی مرضی کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کی جانب سے عطا کردہ آسانیوں ،سہولتوں اور رخصتوں سے فائدہ اٹھا لیا جائے ۔ ’’زندگی اپنے لیے جینا‘‘ میں ہم کبھی بھی حقوق اللہ و حقوق العباد سے فرار نہیں حاصل کر سکتے۔ ہمارے تمام اعمال ہماری جانب ہی خیر یا شر کی صورت لوٹتے ہیں تو زندگی کا دوسرا رخ بھی دراصل ہمارا ہی ہے۔

ایک اندر کی کہانی ہے، ایک باہر کا رنگ ہے ۔ جس کا باہر تو سج گیا مگر اندر ویران ہے اس نے کیا پا لیا ؟ یہود و نصاری ان کے مذہب میں داخل ہونے والوں اور نومولود بچوں کو غسل دیتے تھے۔ عیسائی اس پانی میں زرد رنگ ملا لیا کرتے تھے تو اللہ نے فرما دیا: ’’رنگ تو اللہ کا اچھا ہے ‘‘۔ اللہ کا رنگ صرف ظاہر نہیں باطن کو بھی نکھارتا ہے۔

اللہ کو صحت مند مومن بہ نسبت کمزور کے کیوں پسند ہے؟ طاقتور مومن صرف جسمانی طور پہ نہیں بلکہ قلبی و ذہنی طور پہ بھی مضبوط ہوتا ہے ۔ اس کا عقیدہ مضبوط ہوتا ہے، اس کے فیصلے مضبوط ہوتے ہیں ، ان فیصلوں کے پس منظر میں چھپی وجوہات بیکار نہیں ہوتیں ۔ اس کے پاس نظریہ کا ناقابل شکست ہتھیار ہوتا ہے اسے زندگی میں کچھ فرض ادا کرنے ہوتے ہیں ۔ اور اسی سب کے لیے ہم جیسے ہی اپنے قدم استطاعت اور اعتدال کے دائرے سے باہر نکلتے دیکھتے ہیں تو سمیٹ لیتے ہیں۔ ہم طاقت کم ہوتے دیکھتے ہیں تو حکمت عملی سوچتے ہیں اسی لیے ترجیحات طے کرتے ہیں ۔

مجھے امتحانات کا نظام کبھی پسند نہیں رہا ۔ ہمارے ایک سال یا چھ ماہ میں لگائے گئے قیمتی وقت، حلال پیسے، ذہنی و جسمانی صحت کو جب فقط سو نمبرز میں تولا جاتا ہے تو اس امتحانی نظام کی اس جزو سزا کے دن سے دی گئی مثال کی از خود دھجیاں اڑ جاتی ہیں ۔

اللہ نے کبھی فقط تھیوری پہ نمبر نہیں دیے ہمیشہ تھیوری اور پریکٹیکل پہ حساب کتاب کیا گیا ہے ۔ نظریہ ایک بار ہی مضبوط ہوگیا پھر ساری زندگی اعمال صالح کی ہے ۔ اللہ نے انسان کی دنیا بہت سادہ بنائی تھی ہم نے اپنے معیارات بلند کر لیے ان عمارتوں کی مانند جن کی بلندی چاہے جتنی بھی ہوتی جائے وہ آسمان پہ طے پاتے فیصلے کبھی نہیں سن سکتیں ۔

ہم تھک جاتے ہیں جب استطاعت سے زیادہ کام کرتے ہیں ۔ جو حاصل ہونا ہوتا ہے وہ بھی ادھورا رہ جاتا ہے۔ ہم ضائع ہو جاتے ہیں جب مقصد و نیت کے بغیر عمل کرتے ہیں۔ ہم ذہنی اذیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں جب اللہ پہ توکل نہیں کرتے ۔ ہم ناکام ہو جاتے ہیں جب ترجیحات طے نہیں کرتے۔

ہم زندگی اس لیے نہیں گزار رہے کہ لوگوں کو بتا سکیں کتنے لائق ہیں ،کتنے ذہین ہیں کتنی ڈگریاں ہمارے ہاتھوں میں ہیں اور کتنے محنتی ہیں ۔ ہم دن رات لگاتے ہیں تو اللہ کے لیے ۔ نفلی روزے بھی رکھتے ہیں،اور اللہ کے دیے گئے رزق سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ حقوق اللہ بھی ادا کرتے ہیں اور حقوق العباد بھی اور یقین کیجیے عباد میں ہم خود بھی شامل ہیں ۔ ہمارے اوپر ہمارے جسم، ہمارے ذہن کا بھی حق ہے۔ خود کشی کرنے والے کی معافی نہیں ہے۔

رمضان آنے والا ہے، اسے گزارنے کے لیے اس قابل تو ہونا چاہیے کہ عبادات ادا کر سکیں ۔ چاق و چوبند رہ سکیں ، قرآن سنا سکیں ۔

مدرسہ کا امتحان پھر کبھی دیا جاسکتا ہے ۔ اصل بات علم کی تھی وہ حاصل ہو رہا ہے تو خیر ہے۔

ورکشاپس اس لیے لینی تھیں کہ آگے PT میں مدد دے سکیں تو کم از کم PT میں کچھ کرنے کے لیے ہمت تو ہو، چند چھٹیوں کی بھی خیر ہے ۔ ہم وہ بچے بالکل نہیں ہیں جو نمبرز کم آنے پہ بلندی سے کود جاتے ہیں ۔
ذمہ داریاں اٹھاتے رہیں گے لیکن اتنی جتنی عدل کے دائرے میں ہوں لہذا خیر ہے ۔ لوگوں کو معاف کرنا آنا چاہیے اور ہمیں حسنِ اخلاق ۔

ہم زندگی کی کتاب ، نصابی کتب اور چہروں کی کتابیں پڑھتے پڑھتے تلخ سے ہو جاتے ہیں ۔ اپنی مرضی کی، اپنی پسند کی کتابیں پڑھنی چاہییں بس پسند ذرا بلند ہو ۔ اور کیا آپ کو ایک کتاب کا پتا بتایا جائے تو آپ خوش نہیں ہوں گے؟ ایسی کتاب جو اس صدی تک کی سب سے بہترین کتاب کہلاتی ہو ۔ ’’یہ کتاب رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔‘‘

کچھ ہلکی پھلکی بھی پڑھ لی جائیں ۔ مزاح، کہانیاں، علمی کتب سب جو آپ کو پسند ہو ۔ اس زمانے میں ٹائم مشین کی باتیں بہت دلچسپی سے بھری ہوئی ہیں اور کتابوں سے بڑی ٹائم مشین کیا ہوگی جو آپ کو پرانے زمانے ،پرانے لوگوں اور پرانے قصوں میں لے جاتی ہے ۔

کتابوں سے محبت کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ نئے دور کی جادوئی دنیا سے دور لے جاتی ہیں اور انسان طبعاً سلیم اور سادہ ہے پھر کون ہے جو اپنے آپ میں ٹیڑھ پن اور کجی کا خواہش مند ہو۔ یہ زندگی بھی تو ایک ٹائم مشین ہے ۔ کام ہو جاتے ہیں کاموں کے لیے توکل ، دعائیں اور تدبیر کرتے رہنا چاہیے ۔
’’اَللّٰھُمَّ لَا سَھْلَ اِلَّا مَا جَعَلْتَہُ سَھْلًا ‘‘
’’اے اللہ! کچھ آسان نہیں،مگر جسے تو آسان بنادے‘‘


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں