گلاب کا پھول، شمع، رات

گلشن یاد میں گر آج دم باد صبا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر جویریہ سعید:
اسّی یا نوّے کی دہائی میں ارشد محمود کی ترتیب دی ہوئی، خاموشی سے بہتی کسی ندی یا باد صبا کی مانند آہستہ رو اور نرمی سے دل کو چھونے والی موسیقی، ٹینا ثانی کی ذرا بھاری، بہت پروقار اور مدھر آواز اور فیض کی اس نظم کا لہجہ ۔ یہ سب مل کر کسی بے حد حساس، نازک مزاج، مغرور اور خود اپنے آپ سے نگاہیں چراتی محبت کی داستان کہتے ہیں۔

اس میں ایسا فسوں ہے کہ آپ کہیں کسی حال میں ہوں یہ آپ کو کھینچ کر اس بھولی بسری گم شدہ دنیا کی طرف لے جاتے ہیں جس کے خدو خال شاید آج کی پرشور محبت اور میرا حق ، میری زندگی، میرے خواب ، میری خوشی کے نعرے لگاتی جنریشن زی (Z) کے لیے اتنے انوکھے اور نامانوس ہوں کہ غیر حقیقی معلوم ہونے لگیں۔

گرد ایام کی تحریر کو دھونے کے لیے،
تم سے گویا ہوں دمِ دید جو میری پلکیں
تم جو چاہو تو سنو اور جو نہ چاہو نہ سنو
اور جو حرف کریں مجھ سے گریزاں آنکھیں
تم جو چاہو تو کہو اور جو نہ چاہو نہ کہو

یہ اپنےجذبوں کو خود اپنے آپ پر بھی ظاہر کرنے سے گریزاں انسانوں کی دھیمی دھیمی، سلگتی، آنچ دیتی محبت کا تذکرہ ہے۔ یہ محبت شعلوں کی طرح بھڑک کر آگ نہیں لگاتی بلکہ شمع کی لو کی مانند وجود کو دھیرے دھیرے اندر ہی اندر پگھلاتی رہتی ہے۔

غم سے بہل رہے ہیں آپ ، آپ بہت عجیب ہیں
درد میں ڈھل رہے ہیں آپ ، آپ بہت عجیب ہیں
وقت نے آرزو کی لو دیر ہوئی بجھا بھی دی
اب بھی پگھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
اور
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

محبت ان انسانوں پر ایک خوبصورت مگرغیر متوقع حادثے کی طرح وارد ہوتی ہے اور ان کی ہزار مزاحمت کے باجود زبردستی اندر پھیل کر بسیرا بھی کرلیتی ہے اور اپنا اسباب بھی سارے وجود میں یہاں وہاں پھیلا لیتی ہے۔

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
کبھی کبھی آرزو کے صحرا میں آ کے رکتے ہیں قافلے سے
وہ ساری باتیں لگاؤ کی سی وہ سارے عنواں وصال کے سے

یہ ذمہ داریوں، نسبتوں، تعلقات، معاشرتی قدروں اور روایات غرضیکہ دنیا کو سنبھالی ہوئی ہر شے کا خود سے بڑھ کر احترام کرنے والے لوگ ہیں ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ محبت تو ایک دلکش اجنبی ہے اور اجنبیوں سے نہ دوستی کی جانی چاہیے اور نہ ہی انہیں گھر کے اندر بلانا چاہیے۔ اس اجنبی کے یوں اندر گھس آنے پر یہ گھبرائیں نہ تو اور کیا کریں؟ پس ڈرتے ہیں ، لاتعلقی دکھاتے ہیں، جھگڑتے ہیں، اور اس سب کھینچا تانی کے باوجود جب یہ محبت پورے ٹھسے سے اندر پھیل کر بیٹھ جاتی ہے تو اس سے یوں سردمہری برتنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسے کوئی اپنی نافرمان اولاد کو عاق کرکے یہ جتانے کی کوشش کرتا ہے کہ کسی قسم کی قانونی دستاویز ایسے رشتے کی موت کے لیے بھی کافی ہوتی ہے۔

کئی بے چارے اس اجنبی کو ساری عمر اپنے اندر کسی تہہ خانے میں چھپائے رکھتے ہیں اور خلوت میسر آنے پر اسی تہہ خانے میں جا کر اس سے مل بھی آتے ہیں۔

اور کبھی کسی کے ساتھ یوں ہوتا ہے کہ ہوا کے تیز جھونکوں سے تہہ خانے کے دروازے کے پٹ کھل جاتے ہیں اور انہیں خود سے نگاہیں چراتے اس اجنبی کو اوپر اپنے ڈرائنگ روم میں بٹھانا ہی پڑتا ہے۔ خود سے اعتراف جرم کے یہ دلنشین لمحات اکثر بہت مختصر ہوتے ہیں۔

روایات اور زمہ داریوں کو ہرکولیس کی مانند دونوں ہاتھوں پر سنبھالے لوگوں سے محبت بھی جرم کی طرح ہی تو سرزد ہوتی ہے۔ مدمقابل کوئی بھی آئے پیچھے محبت کو ہی ہٹنا ہوتا ہے۔

نئے زمانے کے شوریدہ سر اور بے باک اظہار جذبات اور حقوق کے بڑھتے ہوئے احساس کی دنیا میں تو یہ سہمی اور شرمائی سی ہر پل قربان ہونے کو تیار محبت خود اذیتی سمجھی جاتی ہے۔ مگر نئے زمانے والے کیا جانیں کہ یہ مغرور اور بے حد حساس محبت کرنے والے کس نازک مزاجی اور وقار کے ساتھ اس درد بھری لذت کو خاموشی جھیلا کرتے ہیں۔

کسی کو دے کے دل کوئی نواسنج فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو
کیا غم خوار نے رسوا لگے آگ اس محبت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی وہ میرا رازداں کیوں ہو

پلکیں اٹھا کر چند لمحے محبت سے نگاہیں ملا کر بات کرلینے کے دلنشیں مگر مختصرلمحات کے بعد تلخ حقیقتیں دوبارہ کواڑوں کو دوبارہ مضبوطی سے بند کرلینے پر مجبور بھی کردیتی ہیں۔ مگر پھر کبھی کوئی کھٹکا ڈرے سہمے وجود میں تمنا کی نئی لہر بھی اٹھا دیتا ہے۔

کبھی انگلی کا پور دروازے میں آکر دب جانے سے انگلی سوج جائے تو درد کے باوجود ہلکی سوجی ہوئی انگلی کو دبانے سے ایک درد بھری لذت محسوس ہوتی ہے جو بار بار اس سوجے ہوئے حصے کو دبانے پر مجبور کرتی رہتی ہے۔

ایسے ہی کیف آگیں درد کو محسوس کرنے کے لیے ایک مغرور اور نازک مزاج اپنے ہی جیسی ایک اور ہستی کو ملاقات کی دعوت دیتا ہے۔
جیسے بےگانے سے اب ملتے ہو ویسے ہی سہی
آؤ دو چار گھڑی میرے مقابل بیٹھو
گرچہ مل بیٹھیں گے ہم تم تو ملاقات کے بعد
اپنا احساس زیاں اور زیادہ ہوگا
ہم سخن ہوں گے جو ہم دونوں تو ہر بات کے بیچ
ان کہی بات کا موہوم سا پردہ ہوگا
کوئی اقرار نہ میں یاد دلاؤں گا نہ تم
کوئی مضمون وفا کا نہ جفا ہوگا

اس دعوت میں یہ اعتراف بڑے واضح طور پر موجود ہے کہ یہ ملاقات وصل کا دیباچہ نہیں ہوگی بلکہ یہ تو فراق کے پیمان پر ایک اور مہر تصدیق ثبت کرے گی۔ احساس زیاں اور ان کہے جذبے درد سے دہرا کردیں گے۔ مگر پھر بھی دل اس بے رحم بلا کی نشیلی آنکھوں سے آنکھیں چار کرنے کو بےچین ہے۔ اور کوئی اندر سے مجبور کرتا ہے کہ سوجی ہوئی انگلی کو ایک بار پھر دبایا جائے۔

یہ دھیمی خوشبوؤں اور نرم رو ہواؤں کے دلدادہ لوگ ہیں۔ یہ الفاظ و اظہار کی ٹھوس صورتوں سے گھبرا جاتے ہیں۔ ان کہی ان کے لیے کہے سے زیادہ بامعنی اور معتبر ہے۔
گرم آنسو اور ٹھنڈی آہیں من میں کیا کیا موسم ہیں
اس بغیا کے بھید نہ کھولو سیر کرو خاموش رہو

اور
اے بے دریغ و بے اماں، ہم نے کبھی کی ہے فغاں
ہم کو تری وحشت سہی، ہم کو سہی سودا ترا
دو اشک جانے کس لیے پلکوں پہ آکے ٹک گئے
الطاف کی بارش تری، اکرام کا دریا ترا
کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل ترے پربت ترے بستی تری صحرا ترا
اور یہ وضع داری اور احتیاط تو دیکھیے
نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں
نگاہ شوق سر بزم بے حجاب نہ ہو
وہ بے خبر ہی سہی اتنے بے خبر بھی نہیں

محبت کے سفر میں وہ ایسی منزلوں سے گزرتے ہیں اور ایسے دشت و صحرا عبور کرتے ہیں کہ دیکھنے والے کو ان کی منزل کے خدو خال غیر واضح اور مبہم سے معلوم ہونے لگتے ہیں۔ انہیں کون عزیز تر ہے؟ منزل یا غم منزل ؟ اتنی مسافتیں طے کر لینے کے بعد وصل ان کی طلب رہا بھی ہے یا درد ان کی ساری شخصیت کو ایک ایسے نئے ڈھانچے میں ڈھال چکا کہ اب وصل و ہجر کے معنی بدل چکے ہیں اور وہ کہتے ہیں:

مستی میں فروغ رخ جاناں نہیں دیکھا
سنتے ہیں بہار آئی گلستاں نہیں دیکھا
ہر حال میں بس پیش نظر ہے وہی صورت
میں نے کبھی روئے شب ہجراں نہیں دیکھا

اور
خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
نظر تغافل یار کا گلہ کس زباں سیں بیاں کروں
کہ شراب صد قدح آرزو خم دل میں تھی سو بھری رہی


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں