سنکیانگ، چین میں حراستی کیمپ

اے کورونا کے خوف میں سہمی ہوئی امت!

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

تزئین حسن:
کورونا کے خوف سے سہمی ہوئی امّت!
ہو سکے تو اپنے علماء سے پوچھو

کورونا کے خوف سے سہمی ہوئی امّت
تم لاک ڈاون میں ہو یا کرفیو میں
یا آئیسولیشن میں
ہمیں خوشی ہے کہ
تم خوش نصیب ہو
تم گھروں میں نماز ادا کر سکتے ہو
تمہیں نماز کے ساتھ ساتھ دعا کی سہولت بھی میسر ہے
ذکر کی سہولت بھی میسر ہے
تمھارے سروں پر کوئی کیمرے مسلط نہیں
جو تمھاری ایک ایک حرکت کو
تمھارے چہرے کی ایک ایک سلوٹ کو ریکارڈ کریں

کورونا کے خوف سے سہمی ہوئی امّت
آج تمھارے علماء ان بحثوں میں مصروف ہیں
کہ
نماز با جماعت کو موقوف کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
طواف پر پابندی لگائی جا سکتی ہے یا نہیں؟

کورونا کے خوف سے سہمی ہوئی امّت
اپنے علماء سے پوچھو
کہ کیا کیمپ میں
حساس کیمروں کی نظرروں میں
تشدد سے بچنے کے لئے
بغیراپنے جسم کے کسی حصے کو حرکت دیئے
اور چہرے کے تاثر بدلے
نماز پڑھی جا سکتی ہے یا نہیں؟

کرونا کے خوف سے سہمی ہوئی امت
ہو سکے تو اپنے علماء سے پوچھو
(نوٹ: یہ سطور سنکیانگ کی جیل اور کیمپ کی سابق زیر حراست قازق بزنس وومن گل بہار جیلیلووا اور ختن سے تعلق رکھنے والے ایک سابق قیدی کےخیالات کی بنیاد پر لکھی گئی ہیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کورونا کے خوف میں لپٹی ہوئی امت
کیا تم بھول گئے؟
چین نے اسلام کو خطر ناک وائرس قرار دے کر۔
ہم اویغور قوم کے لوگوں کو حراستی کیمپوں کے قرنطینہ میں ڈال رکھا ہے۔

اسلام نام کا یہ وائرس سنکیانگ میں بہت خطرناک سمجھا جاتا ہے۔
اگر ہمارے موبائل سے قرآن کی کوئی سورت نکل آئے
یا عربی رسم الخط میں لکھی ہماری اپنی زبان کی کو تحریر
یا ہم اپنے بچوں کا نام محمد یا عمر رکھ لیں
یا ہمارے گھر سے جائے نماز نکل آئے
یا ہم اجازت سے زیادہ بچے پیدا کر لیں

تو ہمیں دس سے بیس سال کی قید ہو سکتی ہے
کیونکہ اسلام نامی یہ وائرس بہت خطرناک ہے۔
یہ پھیل گیا تو بہت تباہی پھیلا دے گا۔

اگر ہم شراب پینے سے انکار کریں
یا سور کا گوشت کھانے سے انکار کریں
یا محض سگریٹ پینے سے ہی انکار کریں
تو اس کا مطلب ہے ہم اس وبا سے متاثر ہو چکے ہیں

ہمیں قرنطینہ میں ڈال کر مہینوں ہمارا علاج کیا جاتا ہے۔
ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم اللہ کے ایک ہونے کا انکار کریں
اور شی جن پنگ کو اپنا مالک مان کر اس کا شکریہ ادا کریں
ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کا انکار کریں
ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم اسلام علیکم کے بجائے ’نی ہائو‘ کہیں

اگر کوئی اس علاج میں تعاون نہ کرے تو اسے تشدد کا نشانہ بنا کر علاج پر راضی کیا جاتا ہے۔
کیونکہ اسلام بہت خطرناک وائرس ہے
یہ پھیلنا نہیں چاہئے۔
اب ہمیں بیگار کے لئے مشرقی چین کی فیکٹریوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔
تم ادیداس، ایپل، سیم سنگ، کی پروڈکٹس استعمال کرتے ہو۔
وہ انہی تعذیبی کیمپوں سے فارغ اویغور ان فیکٹریوں میں تیار کرتے ہیں۔
یہ بڑے بڑے برانڈز مشرقی چین کی فیکٹریوں میں بنتے ہیں۔

چینی اخبارات آج کل شنجیانگ کی لیبر سپلائی کے اشتہارات چھاپتے ہیں۔
اویغور قوم ان اشتہارات میں کھلے عام بکتی ہے۔
ان اشتہارات میں یہ بھی درج ہوتا کہ ہمارے ساتھ سیکورٹی مفت ملے گی۔
ہمیں فیکٹریاں کرائے پر لیتی ہیں۔

اشتہار میں یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ کم سے کم آرڈر ایک ہزار اویغور افراد کا ہونا چاہئے۔
مرکزی حکومت صوبائی حکومت کو ہمیں بیگار پر لگانے پر فی فرد قیمت بھی ادا کرتی ہے
ہم خریدے جاتے ہیں اور بیچے جاتے ہیں۔
یہاں بھی ہمیں قرآن پڑھنے یا عبادت کی اجازت نہیں۔
ہماری رہائش گاہوں کی مستقل تلاشی ہوتی ہے۔
ہم اب کیمپوں سے نکل کر بیگار کر رہے ہیں
لیکن اب بھی ہم سخت چینی سیکیورٹی کے گھیرے میں رہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:
میں ایک یغور مسلمان لڑکی ہوں

ایغورخاتون اور بچوں کے ساتھ بلجیم سفارتخانہ میں کیا بیتی؟

یغورمسلمان، نئی کہانی سامنے آگئی

“اچھا ہوا والدہ کا انتقال ہوگیا ورنہ۔۔۔۔۔۔۔”

ہمیں معلوم ہے
آپ ہمیں نہیں جانتے
آپ ہمیں امت کا حصہ نہیں سمجھتے
لیکن
ہم حراستی کیمپوں میں رہ کر بھی
بیگار کیمپوں میں رہ کر بھی
اپنے آپ کو امت کا حصہ سمجھتے ہیں
اور آپ کے لئے دعا گو ہیں۔

اللہ اپکو کورونا سے بچائے
اور اس قوم سے بھی بچا ئے جو اسلام کو وائرس سمجھتی ہے۔
کیونکہ اگر انہیں آپ پر بھی ایسا غلبہ حاصل ہو گیا جیسا ہم پر حاصل ہے تو یہ آپ کو بھی قرنطینہ میں منتقل کر دیں گے۔
کیوں کہ آپ بھی اسلام نامی اس وائرس کا شکار ہیں۔

کرونا کے خوف سے سہمی ہوئی امت
علماء سے پوچھو کیا روزہ رکھ کر پانی پیا جا سکتا ہے؟

کرونا کے خوف سے سہمی ہوئی امت !
تم نے آج مساجد میں نماز پر پابندی لگائی ہے
عمرے پر پابندی لگا دی ہے
اب رمضان کی آمد آمد ہے
اپنے علماء سے پوچھو
کیا روزے کے دوران پانی پیا جا سکتا ہے؟

ہم شجیانگ یونیورسٹی کے ایغور طلبہ ہیں
ہم روزہ رکھتے ہیں
لیکن
منرل واٹر کی بوتل ساتھ لے کر گھومتے ہیں
تاکہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ ہم اسلام نامی اس وائرس کا شکار ہیں

ہم روزہ رکھتے ہیں لیکن
ساتھ ساتھ منرل واٹر کی بوتل سے چسکیاں بھی لیتے رہتے ہیں
ہم روزہ رکھتے ہیں لیکن
روزے کے دوران سرکاری ضیافتوں میں کھانا بھی کھاتے ہیں
کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو معلوم نہ ہو کہ ہم اسلام نامی وائرس کا شکار ہیں

اگر انھیں یہ بات معلوم ہو جائے
کہ ہم اسلام نامی اس وائرس کا شکار ہیں
تو وہ ہمیں حراستی کیمپوں کے قرنطینہ میں ڈال دیں گے۔
ہم رمضان کی راتوں کو اپنے بستر کے پاس کھانے کی کوئی چیز رکھ کر سوتے ہیں
کہ سحری کے وقت بغیر روشنی کیے اسے کھا لیں

اگر ہم روشنی کریں
تو
قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو یہ بات معلوم ہو جائے گی
کہ ہم اسلام نامی اس وائرس کا شکار ہیں
اور وہ ہمیں حراستی کیمپوں کے قرنطینہ میں ڈال دیں گے۔

سرکار نے ہان چینیوں کے ساتھ ہمیں رشتے داری میں جوڑا ہے
تاکہ وہ ہمارے گھروں میں قیام کر سکیں
ہمیں ان رشتے داروں کو ہر طرح سے خوش رکھنا پڑتا ہے
وہ جس طرح بھی خوش رہنا چاہیں
اگران کی موجودگی میں نماز نہ بھی پڑھیں
روزہ نہ بھی رکھیں

اگر ہم انہیں خوش کرنے کو
سؤر کا گوشت بھی کھا لیں
شراب بھی پی لیں
لیکن وہ خوش نہ ہوں
تو قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں
ہمیں غیر معینہ مدت کے لئے حراستی کیمپوں کے قرنطینہ میں ڈال دیتی ہیں

اور اس قرنطینہ میں ہم اپنے گھر والوں سے نہیں مل سکتے
ان سے بات بھی نہیں کر سکتے
ہمیں یہ بھی نہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم ان سے آئندہ زندگی میں کبھی مل بھی سکیں گے یا نہیں

اس قرنطینہ میں اسلام نامی وائرس سے وجود میں آنے والی بیماری کا علاج کیا جاتا ہے
ہمارے بچوں کے لئے الگ سے قرنطینہ بنا دیئے گئے ہیں
ہم میں سے دو چار لوگ خوش نصیب ہیں کہ
ہمیں سرکاری میڈیا پر اپنے بچوں کو دیکھنے کا موقع مل گیا ہے*
باقی لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ وہ آئندہ زندگی میں کبھی اپنے بچوں سے مل سکیں گے یا نہیں.

مزید پڑھیے:
چین پاکستان سے فری ٹریڈ اصولوں کی خلاف ورزی کیوں کررہاہے؟

سنکیانگ کے معاملے میں خاموشی کیوں؟

چینی حکومت کا کہنا ہے کہ
اسلام نامی وائرس کے خاتمے کے لئے
یہ چھوٹی سی قربانی ہے
سنکیانگ میں نماز اور روزے کو انتہا پسندی سمجھا جاتا ہے
چینی سرکار کہتی ہے
یہ انتہا پسندی اور شدت پسندی پورے معاشرے کے لئے خطرناک ہے.
اس پر قابو پانے کے لئے حراستی کیمپوں کے قرنطینہ
بہت ضروری ہیں

تو کیا کوئی روزہ رکھ کر پانی پی سکتا ہے؟
اور روزہ رکھ کر کھانا کھاسکتا ہے؟
کرونا کے خوف سے سہمی ہوئی امت
ہو سکے تو اپنے علماء سے پوچھو

مندرجہ بالا سطور یغور عوام سے متعدد براہ راست انٹرویوز پر مبنی ہیں۔
(* استنبول میں مقیم ایک اویغور بھائی، استنبول ہی میں مقیم ایک اویغور بہن، اور آسٹریلیا میں مقیم ایک اویغور بھائی نے چینی سرکاری میڈیا کی تیار کردہ وڈیوز اپنے بچوں کو چینی حکومت کے زیر انتظام یتیم خانوں میں دیکھا- خاتون میرے رابطے میں ہیں۔)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں