ڈاکٹرجویریہ سعید، اردو کالم نگار، ماہر نفسیات

سبزہ ابھی باقی ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر جویریہ سعید:
اگر آپ نے Post apocalyptic فلمیں دیکھی ہیں جن میں عالمگیر تباہی کے بعد کے واقعات دکھائے جاتے ہیں تو آپ اس کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں۔

دکھایا جاتا ہے کہ کسی عالمگیر سیلاب یا زبردست عالمی آفت کے نتیجے میں تباہی کا عمل اختتام پذیر ہوجانے کے بعد کچھ انسان بچ گئے ہیں۔ زمین پر گزاری اچھی یادوں کے طور پر اور خود اپنے ہونے اور اپنے آپ کے اس خوبصورت سیارے کے ساتھ تعلق کے اظہار کی علامت کے طور پر اگر کوئی شے باقی ہے تو وہ ملبے سے اٹی تباہ شدہ زمین پر کہیں موجود سبزے کا ایک چھوٹا سا قطعہ ہے، جس کے پاس پانی کا ایک چھوٹا سا تالاب ہوتا ہے۔

ایک چھوٹا اور بھدا مگر پیارا سا گھر ہے جو ہاتھوں اور ملبے سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس میں گزرے دور کی کچھ باقیات عام استعمال کی کچھ اشیاء ہیں۔ ایک پرانی تصویر، پرانا کپ، اکلوتا کشن اور ٹوٹے ہوئے بٹن
یا کسی برتن میں سنبھالا ہوا پودا ہے۔
یا کوئی چہچہاتا ہوا پرندہ۔

یا اگر تباہی کے لیے جدید ہتھیار استعمال کیے گئے ہوں تو زمین پر تمام اشیاء جوں کی توں موجود ہیں۔ ان میں نباتات بھی ہیں اور کہیں کہیں کچھ جانور اور پرندے بھی۔ سامان سے لدی عمارات اور سجے ہوئے مکانات بھی، قیمتی اشیاء بھرے اسٹور بھی۔
مگر وہ بچ جانے والا انسان اگر کچھ ڈھونڈتا ہے تو وہ کسی ہم نفس کا نشان ہے۔

اس کی یادوں کے پردے پر کچھ خوبصورت مناظر لرزتے ہیں اور اس کی بے قراری اور حسرت بڑھ جاتی ہے ۔ کسی کا مسکراتا چہرہ یا کسی کی کھنکتی ہوئی ہنسی کی اواز، راستوں پر چلتے یا ریستورانوں اور باغوں میں ایک دوسرے کے قریب بیٹھے انسان۔
ابدی اور بیکراں خموشی میں کان کسی صدا کو ترستے ہیں۔

موجودہ حالات میں کبھی دل گھبرایا ہے تو اسی خیال سے کہ کیا یہ چیزیں ہم سے کھو جائیں گی۔
اور ان چیزوں کا تصور کرنے کے بعد میں اپنے اردگرد نظریں دوڑاتی ہوں تو مسرت اور تشکر کے احساس سے دل لبریز ہوجاتا ہے۔
یہ وہ نعمتیں ہیں جن کا مجھے احساس نہیں تھا۔
میں اپنے گھر کے باہر اور سڑکوں کے ساتھ درخت لہلہاتے دیکھتی ہوں۔

کل اسپتال سے آتے روش پر بکھرے کئی سفید پھول اٹھا کر دامن میں بھر لیے۔ دماغ نے سرگوشی کی،
”اگر وائرس سے انفیکٹڈ ہوئے؟“
دل نے جھڑک دیا۔
”خوف سے اپنے گھروں میں محصور انسانوں کو ان پامال راہوں میں پھولوں کا لمس محسوس کرنےکا خیال تک نہ آیا ہوگا۔ “
میں نے کئی پھول اٹھا لیے۔

سڑک کے ساتھ اکا دکا انسان چلتے نظر آتے ہیں۔
اسپتال میں کولیگز اور مریضوں کو پیار بھری نظروں سے دیکھتی ہوں۔
اس پیاری سی لڑکی نے چاکلیٹ ایگس تھمائے اور میں نے کتنے دل سے اس کا شکریہ کیا۔
دل میں کہا:
(شکریہ تمہارے ہونے کا۔ شکریہ تمہارے نرم لہجے اور ہمدرد مسکراہٹ کا۔ شکریہ تم سب کا اپنی آوازوں سے میری سماعتوں کو فیضیاب کرتے رہنے کا۔ )

آتی خزاں کی خنک ہوا پتوں سے اٹھکھیلیاں کرتی میرے وجود پر سرسراتی ہے اور میں ایسے مسکراتی ہوں جیسے کسی اپنے نے چھیڑ دیا ہو۔

گھر آکر اپنے چھوٹے سے بچے کو گدگداتی ہوں وہ کھلکھلاتا یے، خوشی اور شرارت سے چیختا ہے اور میں شکر کرتی ہوں کہ میری سماعتیں ہنسی کی آوازوں سے اور میری بصارت اپنے پیاروں کے ہنستے چہروں سے اب تک فیض یاب ہوتی ہیں۔

تھکے وجود کے ساتھ بستر پر دراز ہوکر نیند کی وادیوں میں اترنے سے قبل فیس بک پر دوستوں کے ساتھ شرارتیں کرتی ہوں۔ دوست جمع ہوجاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو چھیڑتے ہیں۔ ہنستے ہیں۔ کسی کی شرارت پر قہقہہ لگاتی ہوں۔ کسی کی گھبراہٹ اور کنفیوژن پر میری شرارتی طبیعت اور مچلتی ہے۔
اور میں شکر کرتی ہوں کہ ابھی ہم نفسوں کا ساتھ باقی ہے۔

اس احساس تشکر اور مسرت کے باوجود کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں یہ سب آخری مرتبہ دیکھ رہی ہوں۔
جیسے یہ سب جانے کو ہے۔

جیسے میں نے اختتام میں مدغم ہو کر مکمل طور پر فنا ہونے سے قبل ریوائینڈ کرکے خوبصورت لمحوں کو اپنی یاداشت میں محفوظ کرلیا ہے۔
جیسے میں ساحل سے دور ہوتی کشتی پر سوار کناروں کے حسین مناظر کو اپنے اندر جذب کررہی ہوں۔

تنہائی میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے یا نماز پڑھتے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جانے سے پہلے چند اور لمحے فیض کے کشید کر لیے جائیں۔
مگر میں وجود اور زندگی کی مسرتوں کو محسوس کرکے رخصت ہونا چاہتی ہوں۔

میں اس صدمے سے بچنا چاہتی ہوں جو ناگہانی اختتام کی صورت میں انسانی روح پر نازل ہوتا ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ انسانوں نے ایسی پیش گوئیاں کر کے اور بعد از اختتام کے مناظر پینٹ کرکے خود کو فنا کے سفر پر جانے کو شعوری طور پر تیار کر لیا ہے۔

جب مجھے واقعات اور اپنے تجربات پر اپنے اختیار کا خوش کن احساس ہونے لگا تو کچھ لمحوں کے بعد عجب حادثہ ہوا اور میں بری طرح اچھل گئی۔ میری گاڑی حادثے سے بال بال بچی ہے۔
میرا دل بری طرح دھڑک رہا ہے ۔ خوف سے میرا وجود سن ہوگیا اور اردگرد سب کچھ دھندلا گیا۔

اتنے برس مہارت سے گاڑی چلاتے رہنے کے بعد مجھے زعم تھا کہ میرا اس پر کنٹرول ہے اور کسی حادثے کی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے اس کا بھی اندازہ ہے۔
مگر ایسا نہ تھا۔

حادثہ اب بھی ناگہانی آفت کی طرح مجھ پر وارد ہوا ہے۔ اور ذہنی اور عملی تیاری کے باوجود میرے اعصاب اس کے لیے تیار نہ تھے۔
اپنے اختیار اور تیاری پر اب میرا یقین متزلزل ہے۔

اب میں گو مگو میں ہوں کہ فنا کے دور میں داخلے کی کیفیت کیسی ہوگی۔ کیا میں پرسکون رہ کر خوشی سے اس کا استقبال کر پاؤں گی یا میرے وجود ناگہانی آفت کے شدید زلزلوں کی زد میں ہوگا۔
مگر اتنا تو ہے کہ میں شکر گزار ہوں کہ
سبزہ ابھی باقی ہے
انسانوں کی آوازیں اور لمس ذہن نہیں اب بھی جسم محسوس کرتا ہے۔
انسان قریب ہوکر بیٹھتے ہیں۔
ہنسی ہے، دعا ہے، محبت ہے!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں